نسل کشی کا مقابلہ کرتے غزہ نے کس طرح دنیائے صحافت کو بدلا؟
’خدا کی قسم میں نے بطور صحافی اپنا فرض ادا کیا۔ میں نے سچ دکھانے کے لیے سب کچھ خطرے میں ڈالا اور اب میں بلآخر پُرسکون ہوں۔۔۔ وہ سکون جو مجھے گزشتہ 8 ماہ میں نہیں مل سکا‘۔
یہ آخری پیغام غزہ کے 23 سالہ صحافی حسام شباط کا ہے جنہیں مارچ میں اسرائیلی فضائی حملے میں شہید کردیا گیا تھا۔
صحافیوں کو کبھی بھی خود ایک خبر نہیں بننا چاہیے۔ تاہم غزہ میں 7 اکتوبر 2023ء سے رواں سال کی یکم اکتوبر تک کم از کم 223 میڈیا نمائندوں کی شہادتوں کی خبریں، شہ سرخیاں بن چکی ہیں۔ ان کے نام اور تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں، ساتھ ہی وہ آخری پیغامات بھی زیرگردش رہے جو انہوں نے شہادت سے پہلے پوسٹ کیے تھے۔ اس کے علاوہ بڑے خبر رساں اداروں نے پڑھنے والوں کی آسانی کے لیے مختصر جملوں میں غزہ میں شہادتوں کی تعداد کی اطلاع دی۔
لیکن نیوز رومز میں ان صحافیوں کی اموات ذاتی محسوس ہوئیں۔ شہید صحافی ہماری ہی کمیونٹی کا حصہ تھے پھر چاہے ہم ان سے کبھی نہ بھی ملے ہوں مگر ہم ان کی رپورٹنگ اور تصاویر پر انحصار کر رہے تھے۔ شہدا میں سے ایک وفا العدینی تھیں۔ انہوں نے 2022ء میں ڈان میں اشاعت کے لیے ایک مضمون لکھا جس کے عنوان کا اردو ترجمہ یوں ہے کہ ’سچ کا قتل: شیرین ابو اکلیح کا قتل ایک یاد دہانی ہے کہ اسرائیل اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گا‘۔
29 ستمبر 2024ء کو وفا کی آواز اس وقت خاموش ہوگئی جب غزہ کے دیر البلاح میں ان کے گھر پر اسرائیلی فضائی حملہ ہوا اور وہ اپنے شوہر، اپنی 5 سالہ بیٹی اور 7 ماہ کے بیٹے سمیت شہید ہوگئیں۔ میرے ساتھی نے ایک نیوز رپورٹ میں ان کا نام دیکھا جس کے بعد ہم نے وفا کا نام اسرائیل کی حالیہ اور انتہائی سفاکانہ مہم میں شہید ہونے والے صحافیوں کی بڑھتی ہوئی فہرست میں شامل کر دیا۔ ایک مہم جس نے شروع سے ہی نسل کشی دکھائی دی حالانکہ اسے باضابطہ طور پر نسل کشی نہیں کہا گیا۔
نسل کشی میں کیا ہوتا ہے؟
7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے حملے اور اسرائیلی حملوں کے فوری بعد مجھے یاد ہے کہ ’نسل کشی‘ کی اصطلاح کب لاگو ہوگی، کے بارے میں مختلف ایڈیٹرز کے ساتھ بات چیت ہوئی تھی۔ جیسا کہ ایک سال گزرا، ہم نے سرخی چلائی کہ ’7 اکتوبر 2024ء کو نسل کشی کے 365 دن‘۔ پھر رواں سال 16 ستمبر کو اقوام متحدہ کے ایک کمیشن نے سرکاری طور پر اسرائیل کے اقدامات کو نسل کشی قرار دیا۔
صحافی جیوری یا جج نہیں ہوتے۔ ہم صحافیوں کو سزائیں دینے یا فیصلے لکھنے کا کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ ادارہ جاتی طور پر، ہمیں نام دینے یا اصطلاحات کے استعمال میں تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے بلکہ ان معاملات کو حکام پر چھوڑ دینا چاہیے جنہیں اس طرح کی بات چیت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
ہمارا کام جتنا ممکن ہو درست طریقے سے معلومات جمع کرنا ہے، اسے رپورٹ کرنا اور ماہرین و تنازع کی جگہ پر موجود لوگوں کی مدد سے تجزیہ پیش کرنا ہے تاکہ صارفین سمجھ سکیں کہ حقیقت میں کیا ہورہا ہے۔
لیکن غزہ نے ہمارے پیشے کا امتحان لیا۔ اسرائیل کی جانب سے ہر عمل جیسے کہ ہسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں پر بمباری کرنا ہو یا انسان ساختہ قحط، سب میں ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا پڑا کہ کیا صحافیوں کو غیرجانبدار رہنا چاہیے یا کیا ایسے وقت میں صرف حقائق کی رپورٹنگ کافی ہے؟
جیسے جیسے شہادتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اسرائیل کے ارادے زیادہ واضح ہوتے گئے تب غزہ نے بھی نسل کشی کے لفظ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا۔ پولینڈ کے وکیل رافائل لیمکن جنہوں نے 1944ء میں نسل کشی کا لفظ وضع کیا تھا، نے دلیل دی کہ ’جینوسائڈ کنونشن چھوٹے ممالک کے لیے خاص طور پر اہم ہے کیونکہ صرف ایک نسل کش حملے سے ان کا مکمل صفایا کیا جا سکتا ہے‘۔
جینوسائڈ کنونشن پہلا انسانی حقوق کا معاہدہ تھا جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 9 دسمبر 1948ء کو منظور کیا تھا اور اس نے دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والے مظالم کے بعد ’دوبارہ کبھی نہیں‘ کے عالمی برادری کے عزم کی نشاندہی کی تھی۔
جہاں ایک جانب میڈیا اب تک یہ بحث کر رہا تھا کہ کب اسے نسل کشی کہا جائے، وہیں وہ بڑے متعلقہ واقعات کی رپورٹنگ بھی کر رہا تھا۔ ایک خبر بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے بارے میں تھی۔ نیتن یاہو کے سرکاری دورے پر ہنگری پہنچنے کے چند گھنٹے بعد ہنگری نے آئی سی سی سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
میڈیا نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ 7 جنوری 2025ء کو امریکا نے کہا کہ سوڈان کی ریپڈ سپورٹ فورسز نے خانہ جنگی کے دوران نسل کشی کی تھی۔ لیکن صرف ایک ماہ بعد 7 فروری کو شہ سرخیاں تھیں کہ امریکا نے اسرائیل کے ساتھ 7.4 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ وہ ہتھیار جو غزہ میں استعمال ہو رہے تھے۔
تقریباً دو سال تک، اگر ہم 7 اکتوبر سے پہلے کی اسرائیل کی کارروائی کو شمار نہ کریں تو قانون نے غزہ کے لوگوں کو بار بار مایوس کیا اور میڈیا نے نسل کشی روکنے میں دنیا کی بے بسی کو دستاویزی شکل دی جو کہ اقوام متحدہ کے ’نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن‘ کا پہلا اصول ہے۔
اس پورے معاملے میں فلسطین میں جاری مصائب نے ایک طاقتور سوال اٹھایا کہ جب بین الاقوامی قانون اس قدر منافق اور کمزور ہے تو ’نسل کشی‘ جیسے لفظ کی کیا اہمیت باقی رپ جاتی ہے؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اگر سب سے زیادہ چونکا دینے والی خبریں بھی اسرائیل کو نسل کشی سے نہیں روک سکتیں تو پھر بین الاقوامی قانون کا کیا فائدہ؟
کیا صحافت نے غزہ کو مایوس کیا؟
17 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل نے اقوام متحدہ کے انروا پناہ گزین کیمپ اور ایک ہسپتال پر حملہ کرکے واضح طور پر ظاہر کیا کہ وہ شہریوں کی جانوں کی پروا کیے بغیر ایک مہلک جنگ کے لیے تیار ہے۔ جنگ کو صرف 10 روز گزرے تھے، میڈیا نے دونوں طرف سے معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی حالانکہ صحافیوں کے پاس تنازع کی رپورٹنگ کے دوران اپنی حفاظت کے لیے پریس کی ویسٹ تک نہیں تھیں۔
نیویارک ٹائمز ان خبر رساں اداروں میں سے ایک تھا جس نے الاہلی عرب ہسپتال میں ہونے والے دھماکے کے بارے میں اپنی ابتدائی رپورٹ کو تبدیل کیا جس میں بہت سے فلسطینی شہید ہوئے تھے۔ 23 اکتوبر کو ایڈیٹرز کے نوٹ میں ’نیویارک ٹائمز‘ نے کہا کہ ان کی ابتدائی خبر میں فلسطینی حکام کی باتوں کی بنیاد پر اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا جبکہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ’حماس کے دعوؤں پر بہت زیادہ انحصار کیا اور واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ ان دعوؤں کی فوری تصدیق نہیں ہوسکی ہے‘۔
بعد میں مختلف گروپوں کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں واضح طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا یہ دھماکا اسرائیلی بمباری تھا یا حماس یا فلسطینی اسلامی جہاد تنظیم کی جانب سے ناکام راکٹ داغنے کی وجہ سے ہوا تھا۔
میں تمام تفصیلات میں نہیں جاؤں گی (اگر آپ اسے پڑھنا چاہتے ہیں تو فرانزک آرکیٹیکچر رپورٹ پڑھ سکتے ہیں) لیکن میں اس واقعے کا ذکر اس لیے کرنا چاہتی ہوں کیونکہ میں نے اس وقت میڈیا کا دفاع کیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ دونوں طرف کی ابتدائی رپورٹس کو ابھی صحافتی اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ تاہم محتاط جانچ صرف اس ایک واقعے تک محدود ثابت ہوئی کیونکہ یہ زیادہ تر اسرائیل کے حامیوں کی جانب سے ردعمل کا باعث بنی۔
بڑے پیمانے پر مغربی میڈیا کی کوریج یک طرفہ تھی۔ نیویارک ٹائمز سمیت شہ سرخیوں میں اکثر کہا جاتا رہا کہ فلسطینی شہری مارے گئے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کس نے انہیں مارا۔ نیوز اسٹوریز میں اسرائیلی ہلاکتوں کے لیے جذباتی الفاظ استعمال کیے گئے مگر فلسطینیوں کے لیے نہیں۔
ایڈیٹرز نے فلسطینی وزارت صحت کو ’حماس کے زیرِ انتظام‘ کہا لیکن شہریوں کی شہادتوں کے بارے میں اسرائیلی حکام کے دعووں کی وضاحت نہیں کی۔ نیز میڈیا گروپوں نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے بات کرنے والے صحافیوں کو نظر انداز یا ان کی آوازوں کو خاموش کیا۔
جن صحافیوں کو خاموش کیا گیا ان میں ایک مہدی حسن بھی تھے جن کا شو امریکی کیبل نیوز چینل ’ایم ایس این بی سی‘ نے منسوخ کر دیا۔ مہدی حسن نے اس بارے میں کھل کر بات نہیں کی کہ کیوں ایسا کیا گیا لیکن بہت سے لوگ بشمول دیگر میڈیا اور قانون سازوں کا خیال ہے کہ یہ فلسطین میں ہونے والے تشدد پر ان کے خیالات کی وجہ سے ہوا۔
سب سے بڑی مایوسی یہ تھی کہ بہت سے میڈیا گروپوں نے فلسطینی صحافیوں کی شہادت پر زیادہ غصہ یا تشویش ظاہر نہیں کی۔ انہوں نے الاہلی عرب ہسپتال پر بمباری کے دوران احتیاط سے جانچ پڑتال کی لیکن جب غزہ کے 5 صحافیوں کو ہسپتال کے باہر ایک وین میں اسرائیلی دفاعی افواج نے نشانہ بنایا تو انہوں نے حقائق کی کوئی جانچ نہیں کی۔
اسرائیلی افواج نے کہا کہ یہ ’اسلامک جہاد کے کارکن تھے جو صحافی نہیں تھے‘ لیکن اس حوالے سے حقیقی تحقیقات نہیں کی گئیں جو اسرائیل کے دعوے کو سچ ثابت کرتیں۔ اسرائیل صحافیوں کو بدنام کرنے اور دھمکیاں دینے کے لیے باقاعدہ مہم چلا رہا ہے جیسا کہ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے رپورٹ کیا ہے۔
محمد بازی نے ’گارجین‘ میں لکھا ہے کہ ‘فلسطینی صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کچھ میڈیا مہمات یا بیانات سامنے آئے ہیں لیکن یہ امریکی مخالفین کی طرف سے نشانہ بنائے گئے دیگر مغربی نامہ نگاروں کے لیے ہونی والی کوششوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں’۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ’آزادی صحافت اور تحفظ کا اصول زیادہ تر صرف مغربی صحافیوں کے لیے ہوتا ہے‘۔
رواں سال 10 اگست کو غزہ میں ایک ہسپتال کے باہر پریس خیمے پر اسرائیلی فضائی حملہ ہوا جس میں الجزیرہ کے 28 سالہ صحافی انس الشریف 4 ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے کہا تھا کہ وہ ان کی حفاظت کے بارے میں ’بہت فکر مند ہیں‘ کیونکہ ’وہ اسرائیلی فوجی مذموم مہم کے نشانے پر ہیں جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ انہیں قتل کر سکتے ہیں‘۔
اس کے باوجود مغربی میڈیا نے ان کے خلاف دھمکیوں یا صحافیوں کو نشانہ بنانے کی اسرائیل کی روش پر بہت کم توجہ دی حالانکہ بہت سے فلسطینی صحافی پہلے ہی شہید ہو چکے تھے۔ ان کی شہادت کے 11 روز بعد، نیویارک ٹائمز نے ایک واضح ہیڈلائن کے ساتھ ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان، ’وہ غزہ کا چہرہ اور آواز تھا۔ اسرائیل نے اسے قتل کر دیا‘، تھا۔
انس نے اپنی موت سے پہلے تیار کیے گئے پیغام میں التجا کی تھی کہ ’زنجیروں کو آپ کو خاموش کرنے کی اجازت نہ دیں‘۔ شاید ان کی شہادت وہی لمحہ تھا جہاں میڈیا کو ان کے حق میں بولنے کی ضرورت تھی۔
غزہ نے صحافت کو کیسے بدلا؟
اگرچہ میڈیا کی کوریج اکثر یک طرفہ ہوتی تھی لیکن غزہ کی صورت حال کو دیکھنے میں لوگوں کے نظریے میں تبدیلی آئی ہے۔ حملوں کے دوران میڈیا نے یہ بھی اطلاع دی کہ کچھ اہم حدود ٹوٹ رہی ہیں جیسے پہلے یہ تسلیم نہیں کیا جاتا تھا کہ تباہی صرف 7 اکتوبر کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ یہ کئی دہائیوں کے واقعات کا نتیجہ ہے۔
وہ حدود جنہوں نے غزہ کو عالمی مسئلے کے طور پر دیکھنے سے روک رکھا تھا لیکن اب یہ رکاوٹ دور ہوئی ہے تو مسئلہ غزہ عالمی سطح پر احتجاجی تحریک میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جبکہ سفارت کاری میں رکاوٹ نے ممالک کو اسرائیل پر کھل کر تنقید کرنے اور فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے روکا تھا۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ میڈیا کی حدود ٹوٹنا شروع ہو گئیں۔ بی بی سی جیسی تنظیمیں جو قابل اعتماد اور دیانتدار سمجھی جاتی تھیں، کو مکمل سچائی سے بچنے اور قابل اعتراض فیصلے کرنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جب بی بی سی نے غزہ کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بنائی تو اس نے دیگر میڈیا تنظیموں کے لیے اپنی کہانیاں شیئر کرنے کی راہ ہموار کی۔
’غزہ: ڈاکٹرز انڈر اٹیک‘ نامی دستاویزی فلم کو بی بی سی نے ڈراپ کر دیا تھا لیکن پھر ’زیٹیو‘ نے اس فلم کو نشر کیا۔ زیٹیو ایک نیوز پلیٹ فارم ہے جسے مہدی حسن نے ایم ایس این بی سی چھوڑنے کے بعد شروع کیا۔ مہدی حسن اور ان کی معاون ٹیم جس میں فاطمہ بھٹو، بسام یوسف، سنتھیا نکسن اور گریٹا تھیونبرگ جیسے بڑے نام شامل ہیں، اسرائیلی اقدامات پر تنقید سے گریز یا نرمی کیے بغیر فلسطین کے بارے میں کھل کر بات کرنے کے لیے زیٹیو کو ایک اہم پلیٹ فارم بنایا ہے۔
اسی دوران اسرائیلی ٹی وی آئی ڈی ایف کے ’آپریشنز‘ کے بارے میں پروپیگنڈا دکھاتا رہا۔ لیکن اسرائیل کے سب سے پرانے اور بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے اخبار ’ہارٹز‘ نے حکومت پر تنقیدی مضامین شائع کیے۔
ہارٹز نے بار بار نیتن یایو کی جانب سے یرغمالیوں کے حوالے سے پالیسی پر تنقید کی۔ مشرق وسطیٰ میں جہاں بہت سے میڈیا خلیجی ریاستوں کی حکومتوں کے زیر کنٹرول ہیں، دی نیشنل نے اسرائیل کے مہلک اقدامات کو وسیع پیمانے پر دکھانے کے لیے خطرات مول لیے۔
معلومات کا سب سے اہم ذریعہ غزہ کے بہادر لوگ ہیں جنہوں نے اسرائیل کی کارروائیوں کو فلمایا اور اسے حقیقی وقت میں سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ دنیا بھر کے لوگوں نے ان کی کہانیوں کی پیروی کی اور ان پر بھروسہ کیا، خاص طور پر جب مرکزی میڈیا منصفانہ یا مکمل طور پر رپورٹ نہیں کر رہا تھا۔ ان کی ہمت نے نیوز روم میں ہم میں سے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا۔
ان کے کام نے میرے جیسے صحافیوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کیا کہ ہمارے کام کا اصل مطلب کیا ہے؟ اور ہم اپنے کام کو ان کی آوازیں بانٹنے اور نسل کشی کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے کیسے استعمال کر سکتے ہیں جس نے اکثر ہمیں بےبس محسوس کروایا ہے؟
بی بی سی لندن کے ایک ساتھی نے دسمبر 2024ء میں مجھے بتایا، ’میں نے اپنے ساتھی کارکنان کو اس بات پر روتے ہوئے دیکھا ہے کہ ہم جنگ کو کس طرح کور کر رہے ہیں‘۔ میں نے شیئر کیا کہ میں نے بھی غزہ سے آنے والی خوفناک تصاویر اور اطلاعات پر اپنے ساتھیوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہیں۔ نسل کشی کی کوریج کرنا انتہائی مشکل رہا ہے۔
ہم نے اُن والدین کی فوٹیج دیکھی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی لاشیں ملبے سے نکال رہے ہیں وہ بھی اس لیے تاکہ وہ انہیں دفنا سکیں۔ نام نہاد ’محفوظ علاقوں‘ میں جانے کے بعد لوگوں پر بمباری کی گئی۔
نہتے شہریوں کو خیموں میں زندہ جلا دیا گیا یا انہیں امداد کی حصول کی کوششوں کے دوران شہید کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹرز کیمرے پر روتے رہے کیونکہ وہ جانیں نہیں بچا سکے یا ان کے پاس کوشش کرنے کے لیے طبی سامان بھی نہیں۔ جذباتی اور ذہنی طور پر ان تمام معلومات سے گزرنا انتہائی تکلیف دہ رہا ہے۔
لیکن ہماری تکالیف میں سے کوئی بھی غزہ کے لوگوں کے درد اور مصائب کے مساوی نہیں۔ وہ لوگ جو نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں اور ہم جو رپورٹ کر رہے ہیں، ہمارے دکھ ایک جیسے نہیں۔
لیکن میں اس تحریر کو صحافی شہدا کی تعداد پر ختم نہیں کروں گی جنہوں نے اس نسل کشی کے دو سالوں کو کور کرنے میں اپنی جانیں گنوا دیں۔ کیونکہ صحافی کا مقصد کبھی بھی خود خبر بننا نہیں ہوتا لیکن اگر آپ غزہ میں صحافی نہیں ہیں جو موت کا سامنا کر رہے ہیں اور اپنے آخری الفاظ لکھ رہے ہیں، تو آپ کے لیے حالات مختلف ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
زہرہ مظہر متحدہ عرب امارات میں مقیم فری لانس لکھاری ہیں۔
انہیں انسٹاگرام پر فالو کریں: zeeinstamazhar@
