برطانوی وزیراعظم کیئراسٹارمر جولائی کے آزاد تجارتی معاہدے کے بعد بھارت پہنچ گئے
برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر تاریخی آزاد تجارتی معاہدے کے چند ماہ بعد بدھ کو بھارت پہنچ گئے۔
خبر رساں اداروں رائٹرز اور اے ایف پی کے مطابق یہ کیئر اسٹارمر کا بھارت کا پہلا سرکاری دورہ ہے، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط بنانا ہے، وہ 125 رکنی اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ آئے ہیں، جس میں برٹش ایئرویز کے چیف ایگزیکٹو شان ڈوئل سمیت متعدد سرکردہ کاروباری شخصیات شامل ہیں۔
یہ 2 روزہ دورہ اُن کے جولائی میں لندن میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد ہو رہا ہے، جہاں دونوں رہنماؤں نے تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تھے، اسٹارمر کل مودی سے دوبارہ ملاقات کریں گے اور ممبئی میں ایک فِن ٹیک کانفرنس سے بھی مشترکہ طور پر خطاب کریں گے۔
کیئر اسٹارمر نے روانگی سے قبل ایک بیان میں کہا کہ ’بھارت 2028 تک دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے، اور اس کے ساتھ تجارت تیز تر اور سستی ہونے والی ہے، اس لیے جو مواقع ہمارے سامنے ہیں وہ بے مثال ہیں‘۔
بھارت اور برطانیہ، جو کبھی آقا و محکوم کے تعلق میں بندھے تھے، اب دنیا کی پانچویں اور چھٹی بڑی معیشتیں ہیں، دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارت تقریباً 54.8 ارب ڈالر کی ہے، جب کہ سرمایہ کاریوں کے نتیجے میں مجموعی طور پر 6 لاکھ سے زائد افراد کو روزگار حاصل ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ دورہ ’بھارت اور برطانیہ کے درمیان مستقبل پر مبنی شراکت داری کے مشترکہ وژن کو ازسرِنو مستحکم کرنے کا قیمتی موقع فراہم کرے گا‘۔
نئے تجارتی معاہدے کے تحت بھارت برطانوی مصنوعات جیسے وسکی، کاسمیٹکس اور طبی آلات پر درآمدی محصولات میں کمی کرے گا، جب کہ برطانیہ بھارتی ملبوسات، جوتوں اور غذائی مصنوعات، بشمول منجمد جھینگوں پر محصولات کم کرے گا۔
تاہم کیئر اسٹارمر نے بھارتی پیشہ ور افراد کے لیے ویزوں میں اضافے کے امکان کو مسترد کر دیا، ممبئی جاتے ہوئے صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’یہ منصوبے کا حصہ نہیں ہے، ہم یہاں اُس آزاد تجارتی معاہدے سے فائدہ اٹھانے آئے ہیں جس پر پہلے ہی دستخط ہو چکے ہیں، اب اسے مؤثر بنانا ہمارا ہدف ہے‘۔
انہوں نے واضح کیا کہ ویزوں سے متعلق تنازعات نے ماضی میں معاہدے کو حتمی شکل دینے میں رکاوٹ ڈالی تھی، لہٰذا اب جب ایک ایسا معاہدہ ہو گیا ہے جس میں ویزا کا پہلو شامل نہیں، تو وہ اس مسئلے کو دوبارہ نہیں کھولنا چاہتے۔
برطانوی وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایچ ون بی ویزا فیس بڑھائے جانے کے بعد برطانیہ بھارتی ٹیکنالوجی ماہرین کو راغب کرنے کے لیے ویزوں کی پیشکش نہیں کرے گا، تاہم انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر وہ ’دنیا کے بہترین ٹیلنٹ‘ کو برطانیہ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اُن ممالک سے آنے والوں کے ویزے روک دیں گے جو اپنے مجرموں یا ڈیپورٹ کیے جانے والوں کو واپس نہیں لیتے، تو انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ یہ مسئلہ موجود نہیں کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان واپسی کا معاہدہ موجود ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ ہم اس پالیسی کو وسیع پیمانے پر دیکھ رہے ہیں۔
کیئر اسٹارمر نے امیگریشن کے حوالے سے زیادہ سخت مؤقف اپنانے کی کوشش کی ہے کیونکہ برطانیہ میں عوامی سطح پر اس معاملے پر تشویش بڑھ رہی ہے اور اُن کی لیبر پارٹی سروے میں دائیں بازو کی ریفارم یو کے پارٹی سے پیچھے ہے۔
ادھر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسٹارمر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسکاٹ لینڈ کے سکھ بلاگر جگتار سنگھ جوہل کے معاملے کو بھی اٹھائیں، جو 2017 سے بھارت میں قید ہیں، ان پر دائیں بازو کے ہندو رہنماؤں کو قتل کرنے کی سازش کا الزام ہے، تاہم اب تک ان کی کسی مقدمے میں سزا نہیں ہوئی اور مارچ میں اُن کے خلاف نو میں سے ایک مقدمہ خارج کر دیا گیا تھا۔