دنیا

بھارت: افغان وزیرِ خارجہ کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کی غیر موجودگی پر ہنگامہ

کیا یہ طالبان کی عورت دشمنی تھی، یا اس کی بھارتی سرزمین پر خاموش تائید؟ بھارت وہ ملک ہے جس نے مغربی ممالک سے قبل عورت کو ووٹ کا حق دیا تھا، اپوزیشن اور بائیں بازو کی مودی سرکار پر تنقید

بھارت کی حزبِ اختلاف کانگریس پارٹی نے ہفتے کے روز افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کی غیر موجودگی پر وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے وزیرِ اعظم سے اس معاملے پر وضاحت طلب کی۔

پرینکا گاندھی نے ایک بیان میں کہا کہ مودی جی، جب آپ کسی عوامی فورم سے خواتین صحافیوں کو خارج کرنے کی اجازت دیتے ہیں، تو آپ دراصل ملک کی ہر عورت کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ آپ ان کے حق میں کھڑے ہونے کے لیے بہت کمزور ہیں، ہمارے ملک میں خواتین کو ہر میدان میں برابر شرکت کا حق حاصل ہے۔

لوک سبھا میں حزبِ مخالف کے رہنما راہول گاندھی نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کی خاموشی اس امتیاز کے سامنے آپ کے ’ناری شکتی‘ کے نعروں کی کھوکھلاپن کو ظاہر کرتی ہے‘۔

راہول گاندھی کی یہ پوسٹ پرینکا واڈرا کے پہلے بیان کے بعد آئی، جس میں انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا وزیرِ اعظم کا خواتین کے حقوق کا اعتراف صرف انتخابی موقع پر دکھاوے کے لیے ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بھارت کی باصلاحیت خواتین کے ساتھ ایسا ’توہین آمیز سلوک‘ کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے؟

پرینکا گاندھی نے ایکس پر لکھا کہ ’وزیرِ اعظم @narendramodi جی، براہ کرم وضاحت فرمائیں کہ طالبان کے نمائندے کی بھارت کے دورے کے دوران خواتین صحافیوں کو پریس کانفرنس سے کیوں ہٹایا گیا؟

اس پریس کانفرنس سے جمعہ کے روز افغان وزیرِ خارجہ نے خطاب کیا تھا، جس میں صرف چند مرد صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا، جب کہ خواتین رپورٹرز نمایاں طور پر غیر حاضر تھیں۔

یہ ملاقات نئی دہلی میں افغان سفارت خانے میں ہوئی، کچھ گھنٹے قبل امیر خان متقی نے بھارتی وزیرِ خارجہ ایس۔ جے شنکر سے تفصیلی بات چیت کی تھی۔

طالبان کا فیصلہ

اگرچہ بھارتی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، لیکن ذرائع کے مطابق میڈیا کے دعوت نامے طالبان کے حکام نے ترتیب دیے تھے جو وزیر کے ہمراہ آئے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی فریق نے افغان وفد کو تجویز دی تھی کہ خواتین صحافیوں کو بھی مدعو کیا جائے۔

کانگریس کے کمیونیکیشن چیف جے رام رمیش نے ایکس پر لکھا کہ طالبان کی خواتین صحافیوں پر پابندی۔ یہ چونکا دینے والا اور ناقابلِ قبول ہے کہ بھارت کی حکومت نے نئی دہلی میں لڑکیوں کے عالمی دن سے ایک روز قبل اس کی اجازت دی!

سابق وزیرِ خزانہ پی۔ چدمبرم نے کہا کہ ’مرد صحافیوں کو چاہیے تھا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کی خواتین ساتھیوں کو نکال دیا گیا ہے (یا بلایا ہی نہیں گیا)، تو وہ احتجاجاً واک آؤٹ کر جاتے۔

بائیں بازو کی تنقید

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکریٹری ڈی۔ راجا نے ایکس پر وزیرِ خارجہ ایس۔ جے شنکر کو ٹیگ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ صرف طالبان کی عورت دشمنی تھی، یا اس کی بھارتی سرزمین پر خاموش تائید؟ بھارت کا جمہوری ڈھانچہ مساوات پر قائم ہے، ہم وہ ملک ہیں جس نے ابتدا ہی سے خواتین کو ووٹ کا حق دیا، جب کہ کئی مغربی ممالک پیچھے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسا امتیازی رویہ یہاں برداشت کرنا ہمارے آئینی جذبے کی توہین ہے، وزارتِ خارجہ کو وضاحت کرنی چاہیے کہ اس طرح کے امتیازی مظاہرے کی اجازت کیسے دی گئی، یہ کوئی سفارتی نزاکت نہیں، بلکہ پدرشاہی نظریے کو تقویت دینا ہے جو دنیا کی نصف آبادی کو عوامی زندگی سے مٹانا چاہتا ہے، ہمیں اسے کھل کر مسترد کرنا چاہیے۔

سفارتی پس منظر

یہ اعلیٰ سطح کا دورہ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی ردِعمل کا باعث بنا، ملاقات کے دوران بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر نے کابل میں بھارت کے ایجنڈے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم دونوں ممالک ترقی اور خوشحالی کے مشترکہ عزم رکھتے ہیں، لیکن سرحد پار دہشت گردی کے خطرے سے ہماری سلامتی کو خطرہ لاحق ہے، ہمیں ہر شکل میں دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانا ہوگا، ہم بھارت کے سلامتی خدشات کے حوالے سے آپ کے احساسات کی قدر کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پہلگام دہشت گرد حملے کے بعد آپ کی یکجہتی قابلِ ذکر تھی، بھارت افغانستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور آزادی کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے درمیان قریبی تعاون آپ کی قومی ترقی اور علاقائی استحکام کو مضبوط کرتا ہے، اسی مقصد کے تحت، میں آج یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ بھارت کے تکنیکی مشن کو کابل میں بھارت کے سفارت خانے کے درجے پر اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔