دنیا

مصر: السیسی اور ٹرمپ مشرق وسطیٰ سے متعلق ’امن سربراہی اجلاس‘ کی صدارت کریں گے

شرم الشیخ میں کل ہونیوالے اجلاس میں سیکریٹری جنرل یو این، برطانیہ، اٹلی، اسپین اور فرانس کے حکمران سمیت 20 ممالک کے رہنما شریک ہوں گے، نیتن یاہو اور حماس کی شرکت واضح نہیں

مصری صدر عبدالفتح السیسی اور امریکی صدر ٹرمپ پیر کے روز غزہ اور وسیع تر مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے شرم الشیخ میں ’امن سربراہی اجلاس‘ کی مشترکہ صدارت کریں گے۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق مصری صدر کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اجلاس ’20 سے زیادہ ممالک کے رہنماؤں کی شرکت‘ کے ساتھ منعقد ہوگا۔

مصری صدر کے دفتر کے بیان کے مطابق اس کانفرنس کا مقصد ’غزہ کی پٹی میں جنگ ختم کرنا، مشرقِ وسطیٰ میں امن و استحکام کے حصول کی کوششوں کو مضبوط بنانا، اور علاقائی سلامتی و استحکام کے ایک نئے دور کا آغاز کرنا‘ ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس اور برطانیہ کے وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے اپنی شرکت کی تصدیق کی ہے، اٹلی کی جورجیا میلونی، اسپین کے پیڈرو سانچیز اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون بھی شریک ہوں گے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو یا فلسطینی گروپ حماس کے کوئی نمائندے اس اجلاس میں شرکت کریں گے یا نہیں۔

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دسیوں ہزار فلسطینی اپنے تباہ شدہ گھروں کی طرف، جو شمالی غزہ کے ساحلی علاقے میں واقع ہیں، پیدل، گاڑیوں اور گدھا گاڑیوں پر واپس جا رہے ہیں، جب کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی بظاہر قائم ہے۔

امریکی ثالثی سے طے پانے والے معاہدے کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی فوج نے جزوی طور پر پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے، اس جنگ میں 67 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور غزہ کا بیشتر علاقہ تباہ ہو چکا ہے، جہاں قحط کی صورتحال برقرار ہے۔

الجزیرہ کے صحافی ہانی محمود نے غزہ شہر سے رپورٹ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی نے تشدد کی ایک شکل کو ختم کیا ہے، لیکن جدوجہد ابھی جاری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لوگ یہ تھکا دینے والا سفر اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ وہ اس جگہ سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بار بار کہتے ہیں کہ وہ غزہ کی پٹی کے اس حصے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہاں سے کبھی بے دخل نہیں ہوں گے۔

تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہاں رات گزارنا بہت مشکل ہوگا، زندہ رہنے کی جدوجہد ہر لمحے خود کو سب سے کڑی شکل میں پیش کر رہی ہے۔

غزہ حکومت کے میڈیا آفس کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے فلسطینیوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے 5 عوامی آپریشنز کیے گئے ہیں، جن میں 850 سے زیادہ امدادی اور بچاؤ کے مشن شامل ہیں۔

ان کارروائیوں میں 150 لاشیں مختلف علاقوں سے نکالی گئی ہیں، جب کہ نصیر ہسپتال نے بتایا کہ خان یونس سے 28 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

مزید برآں، 900 سے زائد سروس مشن پانی اور سیوریج لائنوں کی بحالی کے لیے انجام دیے گئے ہیں۔

یہ سب کچھ انتہائی محدود وسائل کے ساتھ کیا جا رہا ہے، کیوں کہ اسرائیل کی ناکہ بندی اب بھی جاری ہے، جو ایندھن اور سامان کی آمد کو روک رہی ہے، جنگ کے دوران ایمبولینسز، فائر ٹرک اور سول ڈیفنس سینٹرز تباہ ہو گئے، جس سے امدادی سرگرمیاں مزید مشکل ہو گئی ہیں۔

خان یونس کے میئر کے مطابق جنوبی غزہ کے 85 فیصد علاقے کو اسرائیلی حملوں نے تباہ کر دیا ہے اور شہر کی سڑکوں سے تقریباً 4 لاکھ ٹن ملبہ ہٹایا جانا باقی ہے۔

سرحدی گزرگاہیں کھولنے کا مطالبہ

امدادی اداروں نے بھی اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید سرحدی گزرگاہیں کھولے تاکہ امداد غزہ میں داخل ہو سکے۔

عالمی غذائی پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے کہا ہے کہ وہ 145 خوراک تقسیم مراکز کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے تیار ہے، اگر اسرائیل امدادی ترسیل کی اجازت دے، مارچ میں مکمل ناکہ بندی سے پہلے، اقوام متحدہ کی ایجنسیاں 400 مراکز کے ذریعے خوراک تقسیم کرتی تھیں۔

ڈبلیو ایف پی کے نمائندے انتوان رینارڈ نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ شمال تک پہنچنے کے لیے گزرگاہیں کھولی جائیں، جنوری 2025 کی سابقہ جنگ بندی کے دوران ڈبلیو ایف پی نے غزہ میں داخل ہونے والے کل سامان کا تقریباً ایک تہائی فراہم کیا تھا۔

حماس کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے کہا کہ گروپ دوست ممالک کے ساتھ مل کر غزہ میں امداد کے داخلے کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

یونیسف کی ترجمان ٹیس انگرام نے کہا کہ ادارہ بچوں کے لیے غذائیت بخش خوراک، حیض کی صفائی کے سامان، اور خیموں کی فراہمی میں نمایاں اضافہ کرے گا۔

قیدی پیر کو واپس آئیں گے، ٹرمپ

دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ حماس اور دیگر مسلح گروہوں کے زیرِ حراست اسرائیلی قیدی پیر کو ’واپس آئیں گے‘، معاہدے کے مطابق 20 زندہ قیدیوں اور 28 لاشوں کی واپسی متوقع ہے۔

بدلے میں اسرائیل 250 فلسطینی قیدیوں اور گزشتہ 2 سال میں گرفتار کیے گئے تقریباً ایک ہزار 700 غزہ کے باشندوں کو رہا کرے گا۔

پچھلے تبادلوں میں اسرائیل پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی اور انہیں تشدد، تضحیک اور خاندانی ملاقاتوں کی پابندیوں کا نشانہ بنایا۔

تل ابیب میں ہزاروں لوگ ہوسٹیجز اسکوائر میں جمع ہوئے، یہ وہ جگہ ہے جہاں 2 سال سے قیدیوں کے اہل خانہ احتجاج کر رہے تھے۔

اس موقع پر جیرڈ کشنر (ٹرمپ کے داماد) اور ایوانکا ٹرمپ نے امریکی مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے ساتھ اسٹیج پر شرکت کی، جنہوں نے جنگ بندی کے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

وٹکوف نے کہا کہ میں نے اس رات کا خواب دیکھا تھا۔ یہ ایک طویل سفر رہا ہے۔

لوگوں نے نعرے لگائے ’شکریہ ٹرمپ، شکریہ وٹکوف، اور جب نیتن یاہو کا ذکر ہوا تو ان کے خلاف نعرے بازی کی۔

انہوں نے قیدیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ جب تم اپنے خاندانوں اور قوم کی گود میں واپس آؤ گے، تو جان لو کہ سارا اسرائیل اور پوری دنیا تمہیں کھلے بازوؤں اور بے پایاں محبت سے خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے۔

الجزیرہ کی حمدہ سلحوٹ نے کہا کہ اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ اس معاہدے کا سہرا ٹرمپ کو دیتے ہیں، نیتن یاہو کو نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ قیدیوں کے اہل خانہ کو اپنی حکومت یا وزیرِاعظم پر کوئی اعتماد نہیں، وہ اسے اپنی ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے جنگ کو طول دینے کا الزام دیتے ہیں۔

اسی لیے مظاہرین ٹرمپ اور وٹکوف کے لیے نعرے لگاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ امریکیوں کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے۔