خواتین صحافیوں کی پریس کانفرنس میں عدم موجودگی پر افغان وزیرِ خارجہ کی مبہم وضاحت
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے 10 اکتوبر کو نئی دہلی میں کی گئی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کی عدم موجودگی پر اٹھنے والے اعتراضات پر مبہم وضاحت پیش کی ہے۔
امیر خان متقی پر یہ تنقید خاص طور پر بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کی جانب سے سامنے آئی تھی، کانگریس نے نریندر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس معاملے پر وضاحت دینے کا مطالبہ کیا تھا اور حکومت کی ’خاموشی‘ کو امتیازی رویے پر رضامندی کے مترادف قرار دیا۔
بعد ازاں بھارتی نیوز ایجنسی ’اے این آئی‘ نے ایک ویڈیو پوسٹ کی، جس میں امیر خان متقی کو پشتو زبان میں اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے دکھایا گیا۔
افغان وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ہماری ٹیم نے پریس کانفرنس کے لیے محدود تعداد میں صحافیوں سے رابطہ کیا تھا اور صرف انہی لوگوں کو مدعو کیا گیا، بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ کچھ صحافیوں کے نام فہرست میں شامل نہیں تھے، بس بات اتنی سی تھی۔
ہمارے ساتھیوں نے سمجھا کہ جن کے نام فہرست میں ہیں، انہی کو بلایا جائے، اس لیے شرکا کی تعداد محدود رہی، یہ صرف ایک انتظامی فیصلہ تھا، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
بھارتی حکومت کی جانب سے تاحال اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، تاہم، ڈان نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ میڈیا کے دعوت ناموں کا فیصلہ ان طالبان حکام نے کیا تھا جو افغان وزیر خارجہ کے ساتھ بھارت کے دورے پر موجود تھے۔
رپورٹ کے مطابق، بھارتی حکام نے افغان وفد کو پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو بھی شریک کا مشورہ دیا تھا۔
فیصلے پر تنقید
خواتین صحافیوں کی غیر موجودگی پر سب سے نمایاں ردِعمل راہول گاندھی کی جانب سے آیا، انہوں نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ مودی صاحب، جب آپ خواتین صحافیوں کو عوامی فورم سے خارج کرنے کی اجازت دیتے ہیں، تو آپ بھارت کی ہر خاتون کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ آپ ان کے لیے کھڑے ہونے سے قاصر ہیں۔
ہمارے ملک میں خواتین کو ہر شعبے میں برابری کا حق حاصل ہے، ایسے امتیازی رویے پر آپ کی خاموشی آپ کے ہی ‘ناری شکتی’ کے نعروں کی کھوکھلی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔
کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا واڈرا نے سوال اٹھایا کہ کیا وزیرِ اعظم کا خواتین کے حقوق کا اعتراف صرف ایک انتخابی دکھاوا ہے؟
انہوں نے لکھا کہ بھارت کی انتہائی قابل خواتین کی اس توہین کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ وزیرِ اعظم نریندر مودی جی، براہ کرم وضاحت کریں کہ طالبان نمائندے کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو نہ بلانے کے فیصلے پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟
سابق وزیرِ خزانہ پی چدم برم نے کہا کہ مرد صحافیوں کو جب معلوم ہوا کہ ان کی خواتین ساتھیوں کو شامل نہیں کیا گیا تو انہیں پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے تھا۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکریٹری ڈی راجہ نے بھارتی وزیرِ خارجہ کو ٹیگ کرتے ہوئے ایکس پر سوال کیا کہ کیا یہ صرف طالبان کی خواتین دشمنی تھی یا بھارت کی زمین پر اس کی خاموش تائید؟
بھارت مساوات پر قائم ہے، ہم وہ قوم ہیں جس نے آغاز سے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا، جب کہ بہت سے مغربی ممالک پیچھے تھے، یہاں اس طرح کا امتیاز کی اجازت دینا ہمارے آئینی جذبے کی توہین ہے۔
انہوں نے وزارتِ خارجہ سے مطالبہ کیا کہ وہ واضح کرے کہ اس امتیازی رویے کی اجازت کیسے دی گئی۔
یہ کوئی سفارتی نزاکت نہیں بلکہ اس سوچ کی تقویت ہے جو خواتین کو عوامی زندگی سے مٹانا چاہتی ہے، ہمیں بلا جھجھک اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔
پس منظر
افغان طالبان نے اگست 2021 میں کابل پر دوبارہ قبضے کے بعد بہتر رویے کی حکومت کا وعدہ کیا تھا، تاہم، انہوں نے خواتین پر بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
طالبان نے ملک کی خواتین کے یونیورسٹی، عوامی پارکس، جم اور بیوٹی سیلونز جانے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے ان اقدامات کو صنفی امتیاز پر مبنی نظام قرار دیا ہے۔