نقطہ نظر

پاک-افغان جھڑپوں کی خوفناک رات

دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے سے شروع ہونے والی جھڑپیں اتوار کی علی الصبح تک جاری رہیں جس میں پاکستان نے جنگ بندی کی افغان درخواست کو مسترد کیا۔

تقریباً 7 گھنٹوں تک پاکستان نے چترال کے ارندو سے لے کر جنوبی وزیرستان کے انگور اڈے تک پورے سرحدی حصے میں افغانستان کے اندر اہداف پر گولہ باری کی۔

جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا کہ جب افغان طالبان نے رات 9 بجے کے قریب کرم میں گاوی سرحدی بیلٹ کے ساتھ پاکستانی اہداف کو نشانہ بنایا۔ یہ سرحد پار اشتعال انگیزی ظاہری طور پر پاکستان کی جانب سے عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے پر کیے گئے ڈرون حملے کے نتیجے میں کی گئی جس میں پاکستانی حدود میں 27 دہشت گرد مارے گئے تھے۔

شمال سے شروع ہونے والی صورت حال جلد ہی پوری سرحد تک پھیل گئی جہاں افغان فورسز نے کنڑ، ننگرہار اور نورستان صوبوں سے کئی پاکستانی چوکیوں کو نشانہ بنایا۔ افغان طالبان کی جانب سے داغے گئے مارٹر گولے ایک گاؤں میں گرنے کے بعد وادی تیراہ بھی حملے کی زد میں آگیا جس سے ایک شہری جاں بحق اور ایک بچہ زخمی ہوگیا۔

ذرائع جنہوں نے رات بھر کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے تصادم کی قریب سے نگرانی کی، بتایا کہ آدھی رات سے پہلے ہی دونوں طرف سے شدید جھڑپیں شروع ہو چکی تھیں اور پاکستانی افواج نے سرحد پار مخالف چوکیوں کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن توپ خانے اور فضائی حملے شروع کر دیے تھے جس سے طالبان جنگجوؤں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ بھاری آرٹلری کے علاوہ، پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے متعدد افغان پوسٹوں اور عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر گولہ باری کی۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کی جانب سے فضائی حملوں میں افغان صوبے ہلمند، قندھار، خوست، پکتیا اور پکتیکا میں دشمن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جنگی طیاروں نے اپنے درست حملوں سے سیکنڈ کنڈک کے ہیڈکوارٹر اور عزیز، روات اور ناکہ کے مضبوط قلعوں کو تباہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’آدھی رات تک، 11 افغان پوسٹوں کو غیرفعال بنادیا گیا تھا اور دشمن کے 27 اہداف کو تباہ کر دیا گیا جس سے افغان سرزمین کے اندر دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں‘۔

جیسے ہی طالبان کی سرحدی چوکیوں اور دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے افغان فضائی حدود میں پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروں کی گونج سنائی دی، طالبان افواج نے جنگ بندی کے لیے پاکستان سے رابطہ کیا لیکن پاکستان کی جانب سے اس درخواست کو مسترد کر دیا گیا اور اتوار کی صبح تک فوجی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔

علی الصبح 2 بجے سے 4 بجے تک، پاک فضائیہ کے ساتھ توپ خانوں نے بھی افغان پوزیشنز پر گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا جس سے اطلاعات کے مطابق بربچہ، علی دوست، ملگئی کوہ، ترکمان زئی ٹاپ اور خراچار قلعہ میں دشمن کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیا۔ ان حملوں نے افغان فورسز کو بھاری نقصان اٹھانے کے بعد کئی اگلی پوسٹوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔

سرحد کے ساتھ حملے

لوئر دیر میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے شاہی بن شاہی بارڈر پر افغان فورسز کو بھرپور جواب دیا، حملوں کو پسپا کر دیا گیا اور طالبان فورسز کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔

زیریں جنوبی وزیرستان میں سرحد کے ساتھ ساتھ کئی دیہات افغان فائرنگ کی زد میں آئے۔ اس اقدام کے جواب میں فورسز کی طرف سے جوابی کارروائی کی گئی جس سے افغانستان کو کافی جانی و مالی نقصان ہوا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ جوابی کارروائی کے دوران ایک افغان پوسٹ پر قبضہ کر لیا گیا، بعدازاں قبضے کی جگہ پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ ان جھڑپوں کے درمیان، آدھی رات کے فوراً بعد دراندازی کی متعدد کوششیں کی گئیں۔ طالبان نے جنوبی وزیرستان کے علاقے انگور اڈہ میں سری کوند سے دراندازی کی کوشش کی مگر اس کوشش کو ناکام بنا دیا گیا۔

گھنٹوں کی بمباری اور فائرنگ کے بعد صبح 4 بجے کے قریب حالات معمول پر آگئے۔ ذرائع نے بتایا کہ ’صورت حال بدستور کشیدہ ہے لیکن پاکستان مکمل کنٹرول میں ہے کیونکہ پاک فضائیہ کے طیارے اور آرٹلری یونٹ ہائی الرٹ پر ہیں۔ مبینہ طور پر 4 بجے کے بعد سرحد پار سے فائرنگ کا سلسلہ کم ہوا لیکن مغربی سرحد پر نگرانی کو بڑھا دیا گیا تھا‘۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان فائرنگ کے بعد حکام نے انگور اڈہ بارڈر کو فوری طور پر بند کردیا جس کے نتیجے میں دوطرفہ تجارتی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہوگئیں۔ اچانک بندش سے درجنوں ٹرک سرحد کے دونوں جانب پھنسے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ انگور اڈہ سرحد دو سال کی بندش کے بعد صرف 10 روز قبل ہی دوبارہ کھولا گیا تھا۔

خیبر میں طورخم بارڈر کراسنگ بھی بند کر دی گئی۔ تاہم اس کراسنگ پر صورت حال پُرامن رہی۔ باچا مینہ کے رہائشی احاطے کے رہائشیوں نے ڈان کو بتایا کہ سرحدی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے آدھی رات کو سرحد بند کرنے کے حکم کے بعد کچھ خاندان لنڈی کوتل منتقل ہو گئے تھے۔

شمالی وزیرستان میں سرحد کے ساتھ مختلف علاقوں میں پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے بعد غلام خان بارڈر بھی بند کردیا گیا تھا۔

کرم میں تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور افغانستان کے ساتھ خرلاچی بارڈر کو بند کر دیا گیا۔ ضلع میں قبائلی جنگجو مبینہ طور پر خرلاچی اور منوجابا قلعوں کے قریب آرٹلری کی مسلسل جھڑپوں کے درمیان فرنٹ لائن پر سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے منتقل ہوئے۔


دیر، خیبر اور جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان اور کرم میں ہمارے نامہ نگاروں کی مدد بھی اس تحریر میں شامل ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عمر فاروق
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔