دنیا

شدید ردعمل کے بعد امیر متقی کی دوسری پریس کانفرنس میں خواتین کی صف اول میں موجودگی

افغان وزیرِ خارجہ نے پہلی پریس کانفرنس سے خواتین صحافیوں کو نکالنا غیر ارادی قرار دے دیا، بھارتی وزارتِ خارجہ نے افغان سفارتخانے میں جمعہ کی پریس کانفرنس سے اظہار لاتعلقی کردیا۔

ایک تصویر ہزار الفاظ کے برابر ہوتی ہے، اور پیر کے روز بھارتی اخبارات میں نمایاں کی گئی وہ تصویر، جس میں خواتین صحافی طالبان کے وزیرِ خارجہ کی نئی دہلی میں ہونے والی پریس کانفرنس کے اگلی صف میں بیٹھی دکھائی دے رہی تھیں، اسی محاورے کی بہترین مثال بنی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ میں ’بی بی سی نیوز‘ کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ پریس کانفرنس، جو افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کی 48 گھنٹوں میں افغان سفارتخانے میں دوسری میڈیا بریفنگ تھی، جمعہ کو پہلی پریس کانفرنس سے خواتین صحافیوں کو خارج کیے جانے پر ہونے والے سخت ردعمل کے بعد بلائی گئی۔

امیر خان متقی نے اتوار کی پریس کانفرنس میں وضاحت دی کہ خواتین کو شامل نہ کرنا دانستہ نہیں بلکہ ’غیر ارادی‘ طور پر ہوا، ان کا کہنا تھا کہ جمعہ کی پریس کانفرنس مختصر نوٹس پر رکھی گئی تھی اور صحافیوں کی ایک مختصر فہرست طے کی گئی، یہ محض ایک تکنیکی معاملہ تھا، ہمارے ساتھیوں نے مخصوص فہرست کے مطابق دعوت نامے بھیجے تھے اور اس کے پیچھے کوئی اور ارادہ نہیں تھا۔

اقوام متحدہ نے افغانستان کی صورتحال کو ’صنفی امتیاز‘ کی ایک شکل قرار دیا ہے، جہاں خواتین اور لڑکیوں کو ثانوی اور اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے، پارکوں اور جم جانے پر پابندی عائد ہے اور روزگار کے مواقع بھی محدود کیے جا رہے ہیں، طالبان حکومت خواتین کے لیے لباس کے سخت اصول نافذ کرتی ہے اور ان کی نقل و حرکت پر بھی سخت پابندیاں ہیں۔

2021 میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے والے طالبان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کو افغان ثقافت اور اسلامی قانون کی اپنی تشریح کے مطابق یقینی بناتے ہیں، تاہم مغربی سفارت کاروں کے مطابق، خواتین پر عائد سخت پابندیاں طالبان کے لیے عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، ان پابندیوں کو دنیا کی بدترین صنفی قدغنوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

امیر خان متقی جمعرات کو ایک ہفتے کے اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے لیے بھارت پہنچے، جن میں روسی حکومت کے نمائندے بھی شریک تھے، روس وہ واحد ملک ہے جس نے اب تک طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔

نئی دہلی نے طالبان کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا، لیکن دیگر کئی ممالک کی طرح محدود سفارتی روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں، بھارت کابل میں ایک چھوٹا سفارتی مشن چلا رہا ہے اور افغانستان کو انسانی بنیادوں پر امداد بھی فراہم کر رہا ہے۔

یہ دورہ فریقین کے درمیان تعلقات مضبوط کرنے کی سمت ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے، جس میں طالبان کے لیے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے کی کوششوں میں ایک مددگار پیشرفت، اور بھارت کے لیے اپنے اسٹریٹجک و سیکیورٹی مفادات کو آگے بڑھانے کا موقع شامل ہے۔

جمعہ کو امیر خان متقی نے بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کی، جنہوں نے اعلان کیا کہ بھارت کابل میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولے گا، جو 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔

اسی روز بعد میں ہونے والی پریس کانفرنس میں تقریباً 16 مرد صحافی شریک ہوئے، جبکہ خواتین صحافیوں کو افغان سفارتخانے کے دروازے پر ہی روک دیا گیا۔

بھارتی وزارتِ خارجہ نے وضاحت کی کہ اس کا پریس کانفرنس کے انتظامات سے ’کوئی تعلق نہیں‘ تھا، کیونکہ یہ افغان سفارتخانے میں منعقد ہوئی تھی۔

تاہم بھارتی سرزمین پر خواتین صحافیوں کو خارج کیے جانے پر ملک بھر میں سخت ردعمل دیکھنے میں آیا، اپوزیشن رہنما راہول گاندھی نے کہا کہ اس واقعے کی اجازت دے کر وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ’بھارت کی ہر عورت کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اتنی کمزور ہے کہ اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا‘۔