افغانستان میں فتنۃ الخوارج اور القاعدہ کی موجودگی کے ناقابل تردید شواہد سامنے آگئے
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں افغانستان میں فتنۃ الخوارج اور القاعدہ کی موجودگی کے ناقابل تردید شواہد سامنے آگئے، سلامتی کونسل کو پیش کی گئی رپورٹ میں افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگران ٹیم نے یہ 36 ویں رپورٹ 24 جولائی کو پیش کی تھی، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے حکام دہشت گرد گروہوں بشمول القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کو کھلی چھوٹ دیے ہوئے ہیں، یہ دہشتگرد گروہ وسطی ایشیا اور دیگر ممالک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی کا تعلق زیادہ تر عرب نژاد جنگجوؤں سے ہے، یہ جنگجو وہی ہیں جنہوں نے ماضی میں طالبان کے ساتھ مل کر جنگ کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق یہ جنگجو افغانستان کے 6 صوبوں غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، ارزگان اور زابل میں پھیلے ہوئے ہیں، افغانستان میں القاعدہ سے منسلک کئی تربیتی مراکز کی موجودگی کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں، 3 نئے تربیتی مراکز میں القاعدہ اور فتنۃ الخوارج کے دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی ہے۔
رپورٹ کے پیراگراف نمبر 93 میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی فتنۃ الخوارج کے پاس تقریباً 6 ہزار جنگجو موجود ہیں، فتنہ الخوارج کو مختلف اقسام کے ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہے، ان ہتھیاروں کی دستیابی نے اس کے حملوں کی ہلاکت خیزی میں اضافہ کر دیا ہے، خطے کے پائیدار امن اور علاقائی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ دہشتگردوں کی سہولت کاری کا قلع قمع کیا جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال سلامتی کونسل میں پیش کی گئی اقوام متحدہ داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی سے متعلق جائزہ رپورٹ میں بھی فتنۃ الخوارج کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان کا سب سے بڑا دہشت گرد گروپ ہے، جسے افغان طالبان اور القاعدہ دہشت گرد نیٹ ورک کے دھڑوں کی جانب سے آپریشنل اور لاجسٹک سپورٹ حاصل ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی داعش اور القاعدہ/طالبان سے متعلق مانیٹرنگ ٹیم کی 15ویں رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کو دہشت گرد گروپ کے طور پر تصور نہیں کرتے، ان کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔
لگ بھگ 6 ہزار سے 6 ہزار 500 جنگجوؤں کا اندازہ لگاتے ہوئے رپورٹ میں نوٹ کیا گیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اب ان دو درجن یا اس سے زیادہ گروپوں میں سب سے بڑا ہے، جنہیں طالبان حکومت کے دور میں آزادی حاصل ہے۔
اس رپورٹ سے اسلام آباد کے مؤقف کی تصدیق ہوئی تھی کہ کابل پاکستان کو درپیش دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہے، جسے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر داخلہ محسن نقوی جیسے حکام نے بار بار دہرایا ہے۔