’پاکستان دشمنی میں طالبان اپنی طاقت کی صلاحیت کو حد سے زیادہ سمجھ رہے ہیں‘
افغان طالبان حکومت کسی فریب کی دنیا میں جی رہی ہے۔ حالیہ دورہ بھارت کے دوران عبوری وزیر خارجہ نے یہ بیان دیا کہ افغانستان نے برطانوی، سوویت یونین اور امریکی افواج کو شکست دی تھی۔ جی نہیں، ایسا بالکل نہیں تھا۔
اس وقت کے افغان حکمرانوں کو دوسری اینگلو-افغان جنگ (1878ء-1880ء) میں برطانیہ کے ہاتھوں فیصلہ کن شکست ہوئی تھی جس کے نتیجے میں برطانیہ نے افغانستان کو ’گریٹ گیم‘ کے دوران برطانوی راج اور روسی سلطنت کے درمیان ایک بفر زون میں تبدیل کر دیا تھا۔ عبدالرحمٰن خان نے برطانیہ کے زیرقبضہ ہندوستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کو سرحد کے طور پر قبول کیا جس کی توثیق بعدازاں افغان حکمرانوں نے بھی کی تھی۔
جہاں تک سوویت یونین کا تعلق ہے تو ان کے افغانستان سے انخلا میں امریکا اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں نے اہم کردار ادا کیا تھا جنہوں نے 1980ء کی دہائی میں افغان عوام کو سوویت سے بچایا تھا۔
2001ء سے امریکا کی افغانستان میں موجودگی جاری رہی جو اُس وقت ختم ہوئی کہ جب خود امریکا نے اگست 2021ء میں انخلا کا فیصلہ کیا کیونکہ امریکی رائے عامہ دور دراز کی جنگوں کے خلاف ہو چکی تھی جبکہ پاکستان میں طالبان کو جو اسٹریٹجک پناہ حاصل تھی، وہ بھی اس فیصلے کی ایک بڑی وجہ بنی۔
گزشتہ 4 سال سے دنیا طالبان سے توقع کر رہی ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ 2020ء میں طے پائے جانے والے دوحہ امن معاہدے کے تحت کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔ تاہم انہوں نے اس معاہدے کے تحت کیے جانے والے حقیقی نمائندہ حکومت کا قیام، خواتین کے حقوق کا احترام اور افغان سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کو کارروائی کی اجازت نہ دینے، کے تینوں وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
طالبان بالخصوص پاکستان کے ساتھ حال ہی میں ایک خاص مخالفانہ رویہ اختیار کررہے ہیں جبکہ وہ دوہری پالیسی چال چل رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ بھارت کے ساتھ اتحاد کررہے ہیں جس کا مقصد نہ صرف صحت، تعلیم اور بنیادی انفرااسٹرکچر میں بھارتی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانا ہے بلکہ اس غلط فہمی کے تحت پاکستان پر دوہرا دباؤ ڈالنا بھی ہے کہ پاکستان کا دشمن افغانستان کا دوست ہے۔
دوسری جانب بھارت جو ماضی میں طالبان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے، اس نے اپنی پالیسی یکسر بدل دی ہے تاکہ وہ طالبان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر سکے، بالکل اسی طرح جیسے طالبان بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت کو امید ہے کہ وہ طالبان کو پاکستان سے مزید دور لے جاسکے اور حتیٰ کہ چین کے اثر سے بھی نکال سکے۔
طالبان کی دوہری چال کا دوسرا رخ ان کی جارحانہ عسکری کارروائیوں میں اضافہ ہے جس کا مقصد پاک-افغان سرحد کو غیرمستحکم کرنا ہے (جس کی مثال 11 اور 12 اکتوبر 2025ء کے سرحدی واقعات ہیں) جبکہ پاکستان کی جانب سے افغان طالبان حکومت کی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر پاکستان مخالف گروہوں کی حمایت پر مسلسل احتجاج کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جوکہ پاکستان میں بچوں اور دیگر بے گناہ شہریوں کی شہادت میں ملوث ہیں۔
فی الحال پاکستان نے ان افغان حملوں کو ناکام بنادیا ہے اور طالبان فورسز اور ان کے ٹی ٹی پی اتحادیوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ طالبان، پاکستان کے اس مطالبے پر کان دھرنے کو تیار نہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر دہشتگرد عناصر کو پناہ نہ دیں۔
اس کے برعکس افغان قیادت ہر بار ذمہ داری پاکستان پر ڈال دیتی ہے اور یہ مؤقف اختیار کرتی ہے کہ ان دہشتگردوں سے پاکستان کے اندر ہی نمٹا جائے۔ طالبان میڈیا بھی غلط معلومات پھیلانے میں پیش پیش ہے جوکہ بھارتی میڈیا کی ڈگر پر چلتا دکھائی دیتا ہے۔
طالبان اتنے ناشکرے اور اس قدر پاکستان دشمنی پر کیوں اتر آئے ہیں؟ گمان ہوتا ہے کہ وہ وسیع تر افغان معاشرے سے حمایت حاصل کرنے کے لیے قوم پرست بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاید وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے زیرِاثر نہیں ہیں۔ وہ شاید پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے امکان کے تحت ٹی ٹی پی کو پناہ دے رہے ہیں۔
تاہم اس تمام روش میں وہ اپنی طاقت کی صلاحیت کو حد سے زیادہ سمجھ رہے ہیں اور ممکن ہے کہ جلد ہی انہیں ایک تلخ حقیقت کا سامنا کرنا پڑے۔ ان کے لیے یہ سمجھداری ہوگی کہ وہ اپنی سرحدوں کے دفاع اور طالبان کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کو شکست دینے کے پاکستان کے عزم کو کم نہ سمجھیں۔
تو پاکستان کو طالبان کے ساتھ کیسے نمٹنا چاہیے؟ اس اثنا میں فوری طور پر کئی اقدامات پر غور کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کو افغانستان (اور بھارت) کے ساتھ اپنی سرحدوں پر مضبوط دفاع کو ہر صورت برقرار رکھنا چاہیے۔ صرف طاقت ہی جارحیت کو روک سکتی ہے۔
دوسرا اہم اقدام یہ ہوگا کہ پاکستان کو کابل کو یہ واضح پیغام دینا چاہیے کہ بات چیت کے دروازے کھلے ہیں، بشرطیکہ طالبان، ٹی ٹی پی کی حمایت ختم کرنے کا پختہ اور عملی وعدہ کریں۔ اگر وہ اس میں ناکام رہتے ہیں تو پھر فوجی کارروائی سمیت تمام آپشنز کے امکانات موجود رہنے چاہئیں۔
تیسرا یہ کہ پاکستان کو سعودی عرب (جو اب باہمی دفاعی معاہدے میں پاکستان کا شراکت دار ہے)، چین، روس، ایران، وسطی ایشیائی جمہوریہ ممالک، ترکیہ، متحدہ عرب امارات اور امریکا تک سفارتی رابطے کے ذریعے طالبان پر دباؤ برقرار رکھنا چاہیے۔
القاعدہ کے ساتھ طالبان کی ماضی کی وابستگی کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی برادری کبھی بھی یہ نہیں چاہے گی کہ طالبان دوبارہ دہشتگرد تنظیموں کی میزبانی کریں۔ پاکستان کو بھی اپنی شکایات سلامتی کونسل کی قرارداد 1988ء (1267) کی پابندیوں کے تحت اقوام متحدہ میں درج کروانی چاہئیں۔
اسی دوران پاکستان کو اپنے ملک میں ایک وسیع اتفاق رائے قائم کرنا چاہیے تاکہ ماضی میں افغان مہاجرین کے حوالے سے اپنائی گئی فراخ دلانہ پالیسیز کا جائزہ لیا جا سکے۔ ان پالیسیز میں افغان طلبہ کے لیے اسکالرشپس، پاکستانی ہسپتالوں میں افغانوں کے لیے خصوصی ڈیسک، پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے ہونے والی ٹرانزٹ ٹریڈ پر کسٹم ڈیوٹیز جمع کرنا اور افغان معاشرے تک میڈیا کے ذریعے پیغام پہنچانا شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ماہرین کو قابلِ عمل تجاویز پیش کرنے کے لیے شامل کیا جاسکتا ہے۔
طویل مدتی اقدامات کے طور پر پاکستان کو سابقہ فاٹا کے سرحدی علاقے میں ترقیاتی کاموں کے ذریعے مقیم شہریوں کے دل جیتنے اور ان کی ذہنیت بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ لوگ افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی پہلی دفاعی لائن ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ، انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹیڈیز اسلام آباد کے ڈی جی اور کتاب ’ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘ کے مصنف ہیں۔
