دنیا

سعودی عرب کا پاکستان اور افغانستان میں جنگ بندی کا خیرمقدم

مملکت کو امید ہے کہ یہ مثبت قدم دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کے خاتمے کا باعث بنے گا، سعودی وزارت خارجہ کی ترکیہ اور قطر کے سفارتی اور تعمیری کردار کی بھی تعریف

سعودی عرب نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی روز کی سرحدی جھڑپوں کے بعد طے پانے والی جنگ بندی کا خیرمقدم کیا ہے، سعودی عرب نے اس موقع پر خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے کی کوششوں کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔

یہ جنگ بندی گزشتہ روز دوحہ میں پاکستان اور افغانستان کے وفود کے درمیان مذاکرات کے دوران طے پائی، جن میں قطر اور ترکیہ نے ثالثی کا کردار ادا کیا، دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور 25 اکتوبر کو استنبول میں منعقد ہوگا۔

سعودی وزارتِ خارجہ کے ’ایکس‘ پر جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’سعودی عرب کی مملکت، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور افغانستان کی جانب سے فوری جنگ بندی کے اعلان اور دونوں ممالک کے درمیان دیرپا امن و استحکام کے لیے عملی طریقہ کار کے قیام کا خیرمقدم کرتی ہے، جو دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے دوران طے پایا‘۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’مملکت اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ وہ امن و استحکام کو فروغ دینے کی تمام علاقائی و بین الاقوامی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گی، اور پاکستان و افغانستان کے برادر عوام کے لیے سلامتی، استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے اپنے عزم پر قائم ہے‘۔

بیان میں کہا گیا ہےکہ ’مملکت کو امید ہے کہ یہ مثبت قدم دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کے خاتمے کا باعث بنے گا‘۔

سعودی عرب، جس نے گزشتہ ماہ پاکستان کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت کسی ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا، نے اسلام آباد اور کابل کے درمیان جنگ بندی میں ترکیہ اور قطر کے سفارتی اور تعمیری کردار کی بھی تعریف کی۔

گزشتہ روز ترکیہ، عمان اور قطر کی وزارتِ خارجہ نے بھی جنگ بندی کا خیرمقدم کیا تھا۔

سرحدی جھڑپیں

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں کا آغاز 11 اکتوبر کی شب اس وقت ہوا جب افغان فورسز نے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملہ کیا تھا، پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق ان جھڑپوں میں پاکستان کے 23 جوان شہید ہوئے جبکہ 200 سے زائد طالبان اور ان سے منسلک جنگجو مارے گئے۔

افغانستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے یہ کارروائی ’جوابی حملے‘ کے طور پر کی، اور الزام عائد کیا کہ اسلام آباد نے گزشتہ جمعرات کو اس کی سرزمین پر فضائی حملے کیے تھے، پاکستان نے اس الزام کو تسلیم یا مسترد نہیں کیا۔

بعد ازاں 14 اکتوبر کی رات خیبر پختونخوا کے کرم سیکٹر میں ایک بار پھر جھڑپیں ہوئیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق افغان طالبان اور ’فتنۃ الخوارج‘ نے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے کی کوشش کی لیکن سیکیورٹی فورسز نے انہیں ناکام بنا دیا۔

اس کے بعد 15 اکتوبر کو آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بلوچستان کی سرحد پر افغان طالبان کا ایک اور حملہ پسپا کر دیا گیا، جس میں 15 سے 20 افغان طالبان ہلاک ہوئے۔

تاہم افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اسی روز الزام عائد کیا کہ افغان فورسز کو ’جوابی کارروائی پر مجبور‘ کیا گیا، کیونکہ پاکستانی فورسز نے افغانستان کے صوبہ قندھار کے ضلع اسپن بولدک میں حملے کیے تھے۔

بعد میں سرکاری میڈیا نے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان نے کابل اور قندھار میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور ان کی قیادت کو نشانہ بناتے ہوئے ’درست نشانے پر فضائی حملے‘کیے۔

یہ کارروائی اُس وقت کی گئی جب دونوں ممالک کے درمیان 48 گھنٹے کی جنگ بندی کا اعلان ہوا، ’ڈان‘ نے رپورٹ کیا کہ یہ 11 اکتوبر کو شروع ہونے والی جھڑپوں کے بعد دوسری جنگ بندی تھی، اگرچہ پہلی کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا تھا، سفارتی ذرائع کے مطابق اُس موقع پر بھی سعودی عرب اور قطر نے کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کیا تھا، یہ جنگ بندی 17 اکتوبر کو بڑھا دی گئی۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق، جب پاکستان اور افغانستان کے وفود سے دوحہ میں بات چیت کی توقع تھی تاکہ سرحدی دشمنی ختم کی جا سکے، پاکستان نے اسی روز یعنی 17 اکتوبر کو ایک بار پھر افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کارروائیاں انگور اڈہ اور افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے ضلع ارگون اور برمل میں کی گئیں، جہاں سیکیورٹی ذرائع کے مطابق کالعدم حافظ گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں پر درست نشانے لگائے گئے، جن میں درجنوں جنگجو مارے گئے۔

یہ کارروائیاں شمالی وزیرستان میں ایک فوجی تنصیب پر گولیاں اور بموں سے کیے گئے حملے کے بعد ہوئیں۔

یہ سرحدی جھڑپیں ایسے وقت میں ہوئیں جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف انٹیلی جنس بنیادوں پر کی جانے والی کارروائیوں میں اپنے متعدد جوانوں کی شہادت کے بعد شدید دباؤ میں ہے۔

پاکستان میں حالیہ برسوں میں خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اسلام آباد کو خاص طور پر کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف انسدادِ دہشت گردی میں تعاون کی امید تھی، تاہم طالبان کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے انکار دونوں ملکوں کے تعلقات میں بنیادی تنازع بن چکا ہے۔

اسلام آباد بارہا کابل سے مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال ہونے سے روکے، لیکن افغانستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔