نقطہ نظر

انکل سیم کے نام منٹو کا خط اور پاک-امریکا تعلقات کا نیا دور

منٹو کے طنزیہ خطوط اس بات کی یاد دہانی کرواتے ہیں کہ قیام کے ابتدائی سالوں میں بھی امریکا کے ساتھ اچھا رشتہ سیاسی ایجنڈے میں اولین ترجیح تھا۔

سعادت حسن منٹو نے انکل سیم کے نام اپنے ایک خط میں لکھا، ’جوں جوں آپ کی پاکستان کو فوجی امداد دینے کی بات پختہ ہورہی ہے، آپ کے لیے میری عقیدت اور سعادت مندی بڑھ رہی ہے‘۔ انہوں نے مزید لکھا کہ آپ فوجی معاہدہ ضرور کریں، ’کیونکہ یہاں کا ملّا روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ ہے‘۔

‘فوجی امداد کا سلسلہ شروع ہوگیا تو آپ سب سے پہلے ان ملاؤں کو مسلح کیجیے گا۔ ان کے لیے خالص امریکی ساختہ تسبیحیں روانہ کیجیے گا۔۔۔’ منٹو کے طنزیہ خطوط اس بات کی یاد دہانی کرواتے ہیں کہ قیام کے ابتدائی سالوں میں بھی امریکا کے ساتھ اچھا رشتہ، سیاسی ایجنڈے میں اولین ترجیح تھا۔

رواں سال وائٹ ہاؤس کی عنایت دوبارہ حاصل کرنے کی کوششیں پاکستان میں کافی خوشی و مسرت کا باعث بنی ہیں۔ البتہ ممکنہ منفی نتائج کو نظرانداز کیا جارہا ہے حالانکہ یہ ملک اب بھی ماضی میں امریکی طاقت کا ساتھ دینے سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹ رہا ہے۔

سامراجی طاقت کے تسلط سے آزاد ہونے والی ایک نئی ریاست کے طور پر، پاکستان کے رہنما ایک نئے سرپرست کی تلاش میں تھے۔ سرد جنگ 1947ء میں بمشکل شروع ہی ہوئی تھی کہ پاکستان نے 2 ارب ڈالرز کی کم ادائیگی کے عوض خود کو کمیونزم کے خلاف ایک علاقائی طاقت کے طور پر پیش کردیا۔

اس ’صلیبی‘ جنگ میں سب سے زیادہ شرمناک فیروز خان نون کی جانب سے لکھی جانے والی ’خفیہ یادداشت‘ تھی جسے انہوں نے پہلے گورنر جنرل کی جانب سے بھیجا تھا۔ اس میں امریکا کو مطلع کیا گیا تھا کہ ’ہندوؤں‘ (بھارت) کے برعکس ’مسلمانوں‘ نے ماسکو کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار نہیں کیے ہیں تو ’اگر امریکا پاکستان کو مضبوط اور آزاد ملک بننے میں اس کی مدد کرے۔۔۔ تو پھر پاکستان کے عوام اپنی آزادی برقرار رکھنے اور اپنے طرزِ زندگی کے تحفظ کے لیے کمیونزم کے خلاف آخری دم تک لڑیں گے‘۔

یہ طنز کے طور پر نہیں کہا گیا تھا۔ منٹو نے بعد میں اسے زیادہ وضاحت سے یوں بیان کیا، ’اگر مُلّا امریکی انداز میں مسلح ہو گئے تو سوویت یونین جو ہمارے ملک میں کمیونزم اور سوشلزم کا حامی ہے، اسے اپنی دکان بند کرنا پڑے گی۔‘

پہلے تو امریکا کو پاکستان میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی لیکن 1954ء میں جس وقت سعادت حسن منٹو نے یہ خط لکھا تھا، اس وقت ایک فوجی معاہدہ ہونے والا تھا۔ مضطرب پاکستان نے مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں فوجی گروپوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

1956ء کی سوئز جنگ کے دوران جب پاکستان نے مصر کا ساتھ نہیں دیا تو پاکستان میں کچھ لوگ ناخوش تھے۔ لیکن امریکا کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوتے گئے یہاں تک کہ پاکستان ایک فوجی آمریت بن گیا اور اس کے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان کی مغربی ممالک نے تعریف کی اور انہیں ’ایشین ڈی گال‘ (مشہور فرانسیسی رہنما کا مشابہہ) کہا۔

تاہم فرانس میں چارلس ڈی گال کی طرح ایوب خان کی حکومت کو بھی 1968ء کے مظاہروں اور بغاوتوں کے دوران اپنے اپنے ممالک میں شدید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور دونوں میں سے کوئی بھی رہنما ان واقعات سے مکمل طور پر سنبھل نہیں سکا۔

پاکستان میں دوسرا مارشل لا اس وعدے کے ساتھ لگایا گیا کہ ملک میں پہلے عام انتخابات ہوں گے اور یہ واقعی ہوئے بھی لیکن ان کے بعد جو کچھ ہوا، ان واقعات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔

مشرقی پاکستان (جوکہ اب بنگلہ دیش ہے) میں تنازع کے دوران، فوجی کریک ڈاؤن کو امریکا میں نکسن-کسنجر امریکی انتظامیہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ پاکستان کو اپنی فوج کی تعمیر نو کے لیے خفیہ مدد دی گئی کیونکہ اس نے بھارت کے ساتھ جنگ لڑی تھی۔ لیکن ان وسائل نے پاکستان کو جنگ جیتنے میں مدد نہیں دی۔

ملک ٹوٹنے کے بعد پاکستان کے سیاسی قائدین امریکیوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔ ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم نہ صرف خودمختار تھے بلکہ انہوں نے اپنے مغربی مذاکرات کاروں کو برتر سمجھنے کے بجائے اپنے برابر سمجھا۔

تاہم اس جمہوری مرحلے کے المناک انجام کے بعد ملک میں تیسرے فوجی آمر نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کی خفیہ جنگ کے دوران بلاتردد کارٹر اور ریگن انتظامیہ کو اپنی خدمات پیش کیں۔ یہی وہ وقت تھا جب امریکا نے سعادت حسن منٹو کے طنزیہ مشورے پر عمل کیا اور مذہبی رہنماؤں یا بقول منٹو کے ملاؤں کو مسلح کرنا شروع کر دیا۔

مجاہدین کے اتحاد کے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد وہ حکمرانی ٹھیک سے نہیں کرپائے جبکہ منشیات جیسے ہیروئن اور کلاشنکوف رائفلز پاکستان میں سرایت کرگئے۔ سوویت فوج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد اس خطے میں امریکا کی دلچسپی ختم ہوگئی لیکن پاکستان اس معاملے میں شامل رہا جس سے بلآخر طالبان وجود میں آئے۔

چند سال بعد 2001ء میں پاکستان کے چوتھے فوجی آمر نے افغانستان پر امریکی حملے کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم طالبان اور القاعدہ کے فرار ہونے کے بعد ان میں سے بہت سے اراکین پاکستان میں پناہ لے چکے تھے۔ یہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ اس بحران نے پاکستانی طالبان کو پروان چڑھایا جوکہ تقریباً 20 سال بعد بھی خیبر پختونخوا میں ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔

افغانستان میں دوسری طالبان حکومت کے ساتھ حالیہ فوجی جھڑپیں اُس مسئلے کا حل نہیں ہو سکتیں جو بنیادی طور پر ہماری اندرونی نوعیت کا ہے۔ وہ معدنی وسائل جن کا وعدہ ڈونلڈ ٹرمپ سے کیا گیا تھا، اگر واقعی موجود بھی ہیں تو انہیں صرف خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں سے ہی نکالا جا سکتا ہے۔ جبکہ تیل کی امید محض خیالی پلاؤ ہے۔

باتیں کرنا آسان ہے جبکہ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے خوشامد کا فن سیکھ لیا ہے۔ جیسا کہ پنجابی شاعر استاد دامن نے برسوں پہلے کہا تھا، ’ہر مرض دا ٹیکا، زندہ باد امریکا‘۔ ان کا یہ مصرع آج بھی صورت حال پر موزوں معلوم ہوتا ہے۔

ہماے ملک کے رہنماؤں نے انکل سیم کے ساتھ ماضی میں سامنے آنے والے منفی نتائج سے بظاہر کچھ بھی نہیں سیکھا اور وہ ایک بار پھر عالمی سطح پر امریکا کے عشق میں مبتلا ہوچکے ہیں جبکہ وہ اندرون ملک پائے جانے والے معاشی، ماحولیاتی، سیاسی اور قومی سلامتی جیسے سنگین مسائل کو تقریباً نظر انداز کررہے ہیں۔ کیا ٹرمپ کی محبت سے واقعی کوئی خیر نکل سکتا ہے؟


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: mahir.dawn@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔