زہران ممدانی نیویارک کے پہلے مسلم میئر بننے کے قریب، ابتدائی ووٹنگ کا آغاز ہوگیا
نیویارک میں میئر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا مرحلہ شروع ہو گیا ہے، جہاں جنوبی ایشیائی نژاد سیاستدان زہران ممدانی عوامی مقبولیت میں سب سے آگے ہیں اور تاریخ میں نیویارک کے پہلے مسلم میئر بننے کے قریب ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق نیویارک سٹی کے میئر کے انتخاب کے لیے ابتدائی ووٹنگ ہفتے کے روز شروع ہوئی، جہاں 34 سالہ جنوبی ایشیائی نژاد ریاستی قانون ساز اور خود کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ کہنے والے زہران ممدانی حیران کن طور پر سب سے آگے نظر آ رہے ہیں۔
کبھی سیاسی میدان میں ایک اجنبی سمجھے جانے والے زہران ممدانی کی مہم نوجوان ترقی پسند رضاکاروں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف عوامی ناراضی کے باعث تیزی سے مقبول ہوئی ہے۔
ان کا 20 لاکھ نیویارک کے رہائشیوں کے لیے کرایوں میں اضافہ روکنے کا وعدہ ایک ایسے شہر میں گونج پیدا کر رہا ہے، جہاں سستی رہائش ایک خواب بنتی جا رہی ہے۔
اگر زہران ممدانی منتخب ہو گئے تو وہ نیویارک کے پہلے مسلم میئر ہوں گے، جو ایک تاریخی سنگِ میل ہوگا۔
تاہم، مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کی مقبولیت ان کے ترقی پسند اور سوشلسٹ نظریات سے منسلک ہے، نہ کہ مذہب سے۔
زہران ممدانی مزدور یونینوں، دولت پر ٹیکس، عوامی ٹرانسپورٹ کے فروغ اور ماحول دوست رہائش کے حامی ہیں، وہ سماجی ہم آہنگی، غیر قانونی تارکین وطن کے حقوق کے تحفظ، ایل جی بی ٹی کیو برادری کے حقوق اور صحت و تعلیم تک مساوی رسائی پر زور دیتے ہیں۔
ان کے یہ مؤقف نوجوان اور متنوع ووٹروں، بشمول افریقی نژاد امریکی اور ہسپانوی برادریوں میں بھرپور مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔
کوئینز کے رہائشی موویز صدیقی نے کہا کہ زہران ممدانی نے ان لوگوں کو متحرک کر دیا ہے جو روایتی سیاست سے دور محسوس کرتے ہیں، وہ انصاف اور زندگی کے اخراجات کے بارے میں ایسے انداز میں بات کرتے ہیں جو سب کو منسلک کر دیتا ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں، یہودی، ہندو یا لا مذہب، سب کے لیے یکساں۔
ان کے مخالفین نے ان کے مذہب کو سیاسی مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے، اس کے جواب میں زہران ممدانی نے اپنے مسلم تشخص کو کھلے عام اپنانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے ایسے حملوں کو نسلی امتیاز پر مبنی اور بے بنیاد قرار دیا۔
انہوں نے جمعے کے روز بروکلین کی ایک مسجد کے باہر مسلم اجتماع سے خطاب میں کہا کہ ہر مسلمان کا خواب صرف یہ ہے کہ اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جیسا کسی اور نیویارکر کے ساتھ ہوتا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی حملوں کو نسل کشی قرار دینے والے زہران ممدانی کو سوشل میڈیا پر تنقید اور سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن 22 سے 23 اکتوبر کے ایک سروے کے مطابق وہ سابق گورنر اینڈریو کومو سے 18 پوائنٹس آگے ہیں، انہیں 47 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے، جب کہ ریپبلکن امیدوار کرٹس سلِیوا کو صرف 16 فیصد ووٹروں کی حمایت ملی ہے۔
طویل غور و خوض کے بعد ڈیموکریٹک رہنماؤں، سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر اور ایوانِ نمائندگان کے اقلیتی رہنما حکیم جیفریز نے بھی زہران ممدانی کی حمایت کر دی ہے، جو 4 نومبر کے انتخابات سے پہلے پارٹی اتحاد کی علامت ہے۔
حکیم جیفریز نے کہا کہ زہران ممدانی نے مستقل مزاجی سے زندگی کے بڑھتے اخراجات پر توجہ دی ہے اور خود کو تمام نیویارک والوں کا میئر بنانے کا عہد کیا ہے۔
چک شومر کے مطابق زہران ممدانی نے ایک مؤثر مہم چلائی جو نیویارک کے عوام کے مسائل انصاف، مواقع اور بڑھتے ہوئے اخراجات سے جڑی ہوئی تھی، انہوں نے قدامت پسندوں کی جانب سے زہران ممدانی کی شہریت ختم کرنے کے مطالبات کی سخت مذمت کی۔
زہران ممدانی یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے اور بچپن میں نیویارک منتقل ہو گئے، ان کے والد یوگنڈا کے مسلم اسکالر ہیں، جب کہ والدہ میرا نائر بھارت کی معروف ہندو فلم ساز ہیں۔
ان کا یہ متنوع پس منظر نیویارک کی جنوبی ایشیائی برادری میں گونج پیدا کر رہا ہے، جس نے بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کے ووٹروں کو متحد کر دیا ہے۔
تاہم، مسلم قیادت اس بارے میں منقسم ہے، کونسل ویمن شاہانہ حنیف نے زہران ممدانی کو پل تعمیر کرنے والا قرار دیا، انہوں نے کہا کہ دونوں نے 9/11 کے بعد کی تقسیم کو کم کرنے کے لیے ساتھ کام کیا۔
دوسری جانب نیو جرسی کے ناصر قیوم خان نے خبردار کیا کہ زہران ممدانی کے ترقی پسند نظریات روایتی مسلم اقدار سے متصادم ہو سکتے ہیں۔
نیویارک میں ابتدائی ووٹنگ 2019 سے مسلسل بڑھ رہی ہے، جون کے میئرل پرائمری میں تقریباً 35 فیصد ووٹ پہلے ڈالے گئے تھے، اس سال ابتدائی ووٹنگ 2 نومبر تک جاری رہے گی، جب کہ انتخابی دن 4 نومبر کو ہوگا اور جیتنے والا امیدوار جنوری میں عہدہ سنبھالے گا۔