دنیا

امریکا میں شٹ ڈاؤن کو 27 روز مکمل، 2 دن میں 10 ہزار پروازیں تاخیر کا شکار

ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی غیر حاضری میں نمایاں اضافہ، 50 ہزار ٹی ایس اے افسران کو بغیر تنخواہ کے کام کرنا پڑ رہا ہے، اور وہ اپنی پہلی مکمل تنخواہ سے محروم رہیں گے۔

امریکا میں شٹ ڈاؤن کے 27 روز مکمل ہونے پر ہوائی سفر میں خلل مزید گہرا ہو گیا ہے، پیر کے روز ملک بھر میں ایک ہزار 660 سے زائد پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں، جب کہ اتوار کو 8 ہزار 600 سے زیادہ پروازوں میں تاخیر ہوئی تھی۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کے شٹ ڈاؤن کو 27 دن گزرنے کے بعد ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی غیر حاضری میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) نے عملے کی کمی کو پروازوں میں تاخیر کی بڑی وجہ قرار دیا ہے، جو امریکا کے جنوب مشرقی علاقوں اور نیو جرسی کے نیوارک ایئرپورٹ کو متاثر کر رہی ہے۔

اسی دوران ’ایف اے اے‘ نے لاس اینجلس انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گراؤنڈ ڈیلے نافذ کیا، جس کے باعث پروازوں میں اوسطاً 25 منٹ کی تاخیر ہوئی۔

فلائٹ اویئر نامی پروازوں کی نگرانی کرنے والی ویب سائٹ کے مطابق اتوار کے روز ساؤتھ ویسٹ ایئرلائنز کی 45 فیصد (تقریباً 2 ہزار) پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں، جب کہ امریکن ایئرلائنز کی تقریباً ایک ہزار 200 پروازیں (ایک تہائی) متاثر ہوئیں۔

یونائیٹڈ ایئرلائنز کی 24 فیصد (739) پروازیں تاخیر سے روانہ ہوئیں اور ڈیلٹا ایئر لائنز کی 17 فیصد (610) پروازیں تاخیر کا شکار رہیں۔

امریکی محکمہ ٹرانسپورٹ کے ایک عہدیدار کے مطابق اتوار کی 44 فیصد تاخیر کنٹرولرز کی غیر حاضری کی وجہ سے ہوئی، جو عام طور پر صرف 5 فیصد ہوتی ہے، تقریباً 13 ہزار ایئر ٹریفک کنٹرولرز اور 50 ہزار ٹرانسپورٹیشن سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن (ٹی ایس اے) افسران کو بغیر تنخواہ کے کام کرنا پڑ رہا ہے اور وہ آج اپنی پہلی مکمل تنخواہ سے محروم رہیں گے۔

یہ بڑھتی ہوئی تاخیر اور پروازوں کی منسوخیاں عوامی غصے کو ہوا دے رہی ہیں اور شٹ ڈاؤن کے اثرات پر نگرانی کو مزید شدید بنا رہی ہیں، جس سے قانون سازوں پر بجٹ بحران حل کرنے کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔

شٹ ڈاؤن کے اثرات

امریکی معیشت کے اشاریے تیار کرنے والی وفاقی ایجنسیاں، بیورو آف لیبر اسٹیٹکس، بیورو آف اکنامک اینالسس اور سینسس بیورو نے شٹ ڈاؤن کے دوران تقریباً تمام ڈیٹا اکٹھا کرنے اور شائع کرنے کا عمل معطل کر دیا ہے۔

البتہ نجی شعبے سے حاصل ہونے والا کچھ ڈیٹا بدستور جاری رہے گا، اگرچہ ان میں سے کئی رپورٹس جزوی طور پر سرکاری معلومات پر انحصار کرتی ہیں، لہٰذا وہ بھی شٹ ڈاؤن کے طویل ہونے کی صورت میں بند ہو سکتی ہیں۔

یہ ڈیٹا ریلیز کا آئندہ شیڈول ظاہر کرتا ہے کہ کون سے معاشی اعداد و شمار شائع نہیں کیے جائیں گے اگر شٹ ڈاؤن جاری رہا، اور کون سے سلسلے بدستور جاری رہیں گے۔

صورتحال کی سنگینی

یہ شٹ ڈاؤن معمول کی سیاسی کشمکش نہیں ہے، یہ پہلے ہی امریکی تاریخ کا دوسرا سب سے طویل شٹ ڈاؤن بن چکا ہے اور بظاہر کوئی فریق پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

یہ پہلا بڑا شٹ ڈاؤن ہے جو ڈیموکریٹس کی جانب سے شروع کیا گیا اور تاریخ میں صرف دوسری بار ایسا ہوا ہے کہ حکومت بندش کا شکار ہوئی ہے، کیونکہ فریقین میں تنازع اخراجات بڑھانے کے مطالبے پر ہے، بچت کرنے پر نہیں۔