نقطہ نظر

افغانستان، سلطنتوں کا قبرستان: حقیقت یا فسانہ؟

افغانستان کو 'سلطنتوں کا جنگی میدان' کہنا زیادہ درست رہے گا کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بڑی طاقتیں خطے یا دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش میں آپس میں ٹکرائی ہیں۔

حال ہی میں پاکستان افغانستان کے خلاف جنگ کی حالت میں تھا۔ افغانستان کی طرف سے ہمیں وہی پرانا منتر سننے کو ملا کہ ’افغانستان سلطنتوں کا قبرستان ہے‘۔ سب سے پہلے تو پاکستان کوئی سلطنت نہیں جبکہ دوسری بات یہ کہ یہ خیال کسی افسانے سے کم نہیں۔

اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران سابق صدر جو بائیڈن نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’اب جو واقعات ہم دیکھ رہے ہیں وہ افسوس ناک طور پر اس بات کا ثبوت ہیں کہ کوئی بھی فوجی قوت کبھی بھی ایک مستحکم، محفوظ افغانستان کو ممکن نہیں بنا سکتی جو تاریخ میں سلطنتوں کے قبرستان کے نام سے جانا جاتا ہے‘۔

محقق الیگزینڈر ہینی خلیلی اس سے متفق نہیں۔ انہوں نے لکھا، ’بائیڈن کی جانب سے افغانستان کو سلطنتوں کا قبرستان قرار دیا جانا تاریخی اعتبار سے ان کی کم علمی کو ظاہر کرتا ہے‘۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اصطلاح کا تاریخی بیانیے یا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔

الیگزینڈر ہینی خلیلی کے مطابق یہ اصطلاح (افغانستان کے تناظر میں) 2001ء میں پہلی بار فارن افیئرز جریدے کے لیے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) پاکستان کے سابق اسٹیشن چیف ملٹن بیئرڈن کی جانب سے لکھے گئے ایک مضمون میں سامنے آئی تھی۔ اس مضمون کا عنوان ہی ’افغانستان: گریویارڈ آف ایمپائرز‘ (سلطنتوں کا قبرستان) تھا۔ ملٹن بیئرڈن کے مضمون سے پہلے اس جملے کے استعمال کے حوالے سے بہت کم شواہد موجود ہیں۔

2001ء میں جب امریکی افواج طالبان حکومت کو ختم کرنے اور سعودی شہریت رکھنے والے دہشت گرد اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے کے لیے افغانستان پر حملے کی تیاری میں تھیں تب ملٹن بیئرڈن نے امریکی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ تاریخ میں کئی بڑی افواج نے افغانستان پر قبضے کی کوشش کی لیکن انہیں بے رحم افغان قبائل کے ساتھ مقابلوں میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ملٹن بیئرڈن نے اس سلسلے میں یونانی بادشاہ سکندر اعظم کا نام لیا، خونخوار منگول جنگجو چنگیز خان، برطانوی سلطنت اور سوویت یونین کی مثالیں پیش کیں جنہیں افغانوں نے ’شکست‘ دی۔

لیکن الیگزینڈر ہینی خلیلی کے مطابق، ’ملٹن بیئرڈن کی دلیل تاریخی حقائق سے بالکل متصادم ہے‘۔ سکندر اعظم اور چنگیز خان نے نہ صرف افغانستان فتح کیا تھا بلکہ ان کے جان نشینوں نے ان کے بعد صدیوں افغانستان پر حکومت کی تھی۔ ’قبرستان‘ کا بیانیہ اس حقیقت کو بھی نظر انداز کرتا ہے کہ بہت سی سلطنتیں جیسے ہخامنشی، کوشان، مغل اور دیگر نے طویل عرصے تک افغانستان کے بڑے حصوں پر کامیابی سے حکومت کی تھی۔

ہاں اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 19ویں صدی میں برطانوی افواج کو افغانستان میں شکستوں کا سامنا کرنا پڑا (کابل فتح کرنے کے بعد) لیکن مجموعی طور پر برطانوی سلطنت کو اس سے بہت ہی کم نقصان پہنچا۔ 1940ء کی دہائی کے وسط میں سلطنت کے ٹوٹنے تک وہ دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور ترین سلطنت کے طور پر قائم رہی۔ بنیادی طور پر وہ دوسری جنگ عظیم کے اثرات اور اس کے بعد ہونے والے نوآبادیات کے دور کی وجہ سے ٹوٹی تھی۔ افغانستان کا اس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس کے باوجود بہت سے عسکری ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان کو توڑنا آسان نہیں۔ تاہم اس حوالے سے ان کی رائے اکثر مبالغہ آمیز خیال پر مبنی نہیں ہے کہ افغانوں میں ایک ’افسانوی جنگی جذبہ‘ ہے جو سلطنتوں کو شکست دیتا ہے، اس کے بجائے ان کے خیالات رومانوی یا بہادری کے افسانوں سے نہیں بلکہ عملی فوجی و تزویراتی حقائق سے جڑے ہیں۔

لندن کے کنگز کالج میں دفاعی مطالعے کی تعلیم دینے والے پیٹرک پورٹر کے مطابق، افغانستان کی جغرافیہ ہی وہ وجہ ہے جو اسے فتح کرنے اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے ایک مشکل ملک بناتی ہے۔ یہ پہاڑوں، صحراؤں اور انتہائی درجہ حرارت رکھنے والا ملک ہے جو نہ صرف جنگ لڑنے بلکہ لاجسٹک طور پر کام کرنے میں بھی مشکلات پیدا کرتا ہے۔ یہ نقل و حرکت کو محدود کرتا ہے اور حملہ آور فوج کے لیے طاقت کا استعمال مشکل بناتا ہے۔

یہ جملہ کہ ’افغانستان سلطنتوں کا قبرستان ہے‘، غالباً 1980ء کی دہائی میں افغانستان میں سوویت مخالف شورش کے دوران سی آئی اے کے رکن کے طور پر ملٹن بیئرڈن کے تجربات سے اخذ کیا گیا تھا۔ سی آئی اے اور پاکستان کی اہم انٹیلی جنس ایجنسی، آئی ایس آئی، دسمبر 1979ء میں افغانستان پر حملہ کرنے والے سوویت افواج کے خلاف لڑنے کے لیے افغان گروہوں (مجاہدین) کی مالی معاونت، انہیں مسلح کرنے اور تربیت دینے کے لیے مل کر کام کر رہے تھے۔

مجاہدین کو ان کی لڑائی کا جواز فراہم کرنے کے لیے بیانیہ اور وضاحتیں بھی دی گئیں۔ ان کی جدوجہد کو ایک ’ملحد حملہ آور‘ کے خلاف ’جہاد‘ اور اپنے ملک کو آزاد کرنے کی جنگ کے طور پر بیان کیا گیا۔ ان بڑے بیانیوں سے کئی چھوٹے بیانیے بھی ابھرے جو افغانوں کے ’تاریخی جنگجو جذبے‘ کے افسانوی تصورات پر مبنی تھے۔

امریکی اور پاکستانی حکومتوں نے ان تصورات کو مضبوط کیا۔ انہوں نے انہیں مضبوط بنانے کے لیے مقبول ثقافتی حربوں کا بھی استعمال کیا۔ اس کی مثال میں ہولی وڈ کی بلاک بسٹر فلم ’ریمبو 3‘ شامل ہے جبکہ پاکستان کا ٹی وی ڈراما ’پناہ‘ بھی اس سلسلے میں اہم ہے۔

1985ء میں پشاور میں شائع ہونے والا ایک پمفلٹ بھی اہم تھا جس میں ایک سوویت مخالف جہادی گروپ نے دعویٰ کیا تھا کہ مجاہدین نے سوویت ٹینکوں کو تباہ کرنا شروع کردیا ہے جبکہ وہ ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوکر ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہے تھے’۔

یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی اس افسانے پر یقین کرسکتا ہے کہ ’افغانستان سلطنتوں کا قبرستان ہے‘ کیونکہ یہ اس وقت گردش کرنے والے کئی چھوٹے بیانیوں میں سے ایک تھا۔ لیکن اس بیانیے کو 2001ء میں ملٹن بیئرڈن نے مین اسٹریم کا حصہ بنایا جس نے جلد ہی سوویت مخالف سورش میں اپنے قدم جما لیے۔ لیکن ایسے مبصرین بھی ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کہانی بھی افسانہ ہے کہ مجاہدین نے امریکی ہتھیاروں سے تنہا اپنے بل پر باآسانی سوویت افواج کو شکست دی تھی۔

2011ء میں اپنی کتاب Afgansty میں برطانوی سفارت کار روڈرک بریتھویٹ نے لکھا ہے کہ سوویت فوجیوں اور مجاہدین کے درمیان جنگ دراصل تعطل پر ختم ہوئی۔ سوویت فوج نے کامیابی سے بڑے شہروں اور انفرااسٹرکچر پر قبضہ کرلیا تھا جبکہ مجاہدین شہر سے باہر کے علاقوں پر قابض تھے۔ روڈرک کے مطابق 1989ء میں سوویت انخلا، گھریلو سیاست اور فیصلہ کن فوجی شکست کے بجائے ایک مہنگی جنگ کو ختم کرنے کی خواہش کے مطابق عمل میں آیا تھا۔

’قبرستان‘ والا بیانیہ دو طریقوں سے کام کرتا ہے۔ طالبان نے 2000ء کی دہائی کی ابتدا میں اس کا استعمال شروع کیا جس سے وہ حملہ آوروں کو متنبہ کرتے تھے اور ناقابلِ تسخیر افغانستان کی افسانوی تصویر پیش کرتے تھے۔ دوسری جانب غیرافغان اس اصطلاح کا استعمال اپنی شکست کو معقول بنانے کی کوشش میں کرتے تھے کہ سب کو یہاں شکست ہوئی تھی تو ہم بھی اسی لیے ہارے ہیں۔ جو بائیڈن اپنی تقریر میں بالکل یہی کررہے تھے۔

دونوں ہی اعتبار سے یہ تصور بہت سادہ سا ہے جس نے جغرافیائی سیاسی پیچیدگیوں کو جنم دیا ہے جبکہ افغانستان اور وہاں لڑی جانے والی تمام جنگوں کو نئی شکل دی ہے۔ سربیا کے مؤرخ نیمنجا جووانوویچ نے 2022ء میں نشاندہی کی کہ اگرچہ افغانستان کے پاس وسائل کم ہیں لیکن اس کے محل وقوع نے اسے ہزاروں سالوں سے تزویراتی طور پر ایک اہم مقام کی حیثیت دی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سے طاقتوں نے یہاں حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ نیمنجا جووانوویچ نے تجویز دی کہ افغانستان کو ’سلطنتوں کا جنگی میدان‘ کہنا زیادہ درست رہے گا کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بڑی طاقتیں خطے یا دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش میں آپس میں ٹکرائی ہیں۔

افغانستان سے سرگرم عسکریت پسندوں کی جانب سے پاکستان پر حملوں اور مبینہ طور پر بھارت کے حمایت یافتہ حملوں کو جنوبی ایشیا میں اُبھرتی ہوئی طاقت بننے کے لیے پاکستان کی بڑھتی ہوئی ساکھ کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔