دنیا

عوامی لیگ کے لاکھوں حامی بنگلہ دیش کے انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے، حسینہ واجد

اگر آپ چاہتے ہیں کہ سیاسی نظام کام کرے تو آپ لاکھوں لوگوں کو ووٹ کے حق سے محروم نہیں کر سکتے، میرے خلاف مقدمات سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں، سابق وزیراعظم بنگلہ دیش

معزول وزیرِاعظم شیخ حسینہ نے نئی دہلی میں اپنے جلاوطنی کے مقام سے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کی عوامی لیگ کے لاکھوں حامی اگلے سال کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے، کیونکہ پارٹی کو انتخاب میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔

’رائٹرز‘ کو تحریری جواب میں 78 سالہ حسینہ نے کہا کہ وہ ایسی کسی بھی حکومت کے تحت بنگلہ دیش واپس نہیں جائیں گی جو عوامی لیگ کو شامل کیے بغیر بنے، اور وہ بھارت میں ہی رہنے کا ارادہ رکھتی ہیں، جہاں وہ اگست 2024 میں طلبہ تحریک کے بعد فرار ہو گئی تھیں۔

نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت، جو حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد سے اقتدار میں ہے، اس نے وعدہ کیا ہے کہ اگلے سال فروری میں انتخابات کرائے جائیں گے۔

حسینہ واجد نے ای میل کے ذریعے ’رائٹرز‘ کو دیے گئے جوابات میں کہا کہ عوامی لیگ پر پابندی نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ خود حکومت کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگلی حکومت کو انتخابی جواز حاصل ہونا چاہیے، عوامی لیگ کے لاکھوں حامی ہیں، اور موجودہ صورتحال میں وہ ووٹ نہیں دیں گے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ سیاسی نظام کام کرے تو آپ لاکھوں لوگوں کو ووٹ کے حق سے محروم نہیں کر سکتے۔

عوامی لیگ کے انتخاب میں حصہ لینے کی اُمید

بنگلہ دیش میں 12 کروڑ 60 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلِسٹ پارٹی (بی این پی) طویل عرصے سے ملکی سیاست پر حاوی رہی ہیں، اور توقع ہے کہ بی این پی آئندہ انتخابات جیتے گی۔

الیکشن کمیشن نے مئی میں عوامی لیگ کی رجسٹریشن معطل کر دی تھی، اس سے قبل یونس کی قیادت میں حکومت نے قومی سلامتی کے خدشات اور عوامی لیگ کے سینئر رہنماؤں پر جنگی جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔

شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ ہم عوامی لیگ کے ووٹروں سے یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ کسی دوسری جماعت کی حمایت کریں، ہمیں اب بھی اُمید ہے کہ عقلِ عام غالب آئے گی اور ہمیں خود انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے گی۔

انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا ان کے یا ان کے نمائندوں کے بنگلہ دیشی حکام کے ساتھ کسی خفیہ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے یا نہیں۔

انتخابات کا بائیکاٹ مزید تقسیم کے بیج بوئے گا

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے گفتگو میں حسینہ واجد نے خبردار کیا کہ ان کی جماعت کے بغیر انتخابات کرانا ملک میں مزید تقسیم پیدا کرے گا۔

حسینہ کو بنگلہ دیش کی معیشت میں نمایاں تبدیلی کا سہرا دیا جاتا ہے، لیکن ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اختلافِ رائے دبانے کے الزامات بھی عائد ہیں۔

انہوں نے 2024 میں چوتھی مسلسل مدت کے لیے اقتدار سنبھالا تھا، جس انتخاب کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا تھا، کیوں کہ اس کے بیشتر رہنما جیل یا جلاوطنی میں تھے۔

بنگلہ دیش کی داخلی جنگی جرائم کی عدالت، انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے حسینہ کے خلاف کارروائی مکمل کر لی ہے، اور وہ 2024 کے وسط میں طلبہ احتجاج کے دوران ہونے والے تشدد میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا کر رہی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، 15 جولائی سے 5 اگست 2024 کے درمیان ہونے والے مظاہروں میں تقریباً ایک ہزار 400 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے، جن میں سے بیشتر سیکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔

یہ واقعہ 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد ملک میں سب سے شدید خونریزی تھی۔

استغاثہ کا الزام ہے کہ حسینہ نے سیکیورٹی ایجنسیوں کے خفیہ حراستی مراکز کے ذریعے حزبِ اختلاف کے کارکنوں کے اغوا اور تشدد کی بھی منظوری دی تھی۔

فیصلے کی تاریخ 13 نومبر مقرر ہے۔

حسینہ واجد نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائیاں سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں، یہ فرضی عدالتوں کے ڈھونگ ہیں جن میں فیصلے پہلے سے طے شدہ ہیں، مجھے دفاع کا مناسب موقع یا پیشگی اطلاع تک نہیں دی گئی۔

اے ایف پی کو دیے گئے تحریری جوابات میں انہوں نے اپنے خلاف مقدمے کو ’قانونی مذاق‘ قرار دیا۔

سیاسی بحران کے باوجود، شیخ حسینہ نے کہا کہ عوامی لیگ بنگلہ دیش کے مستقبل میں دوبارہ کردار ادا کرے گی، چاہے وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، پارٹی کی قیادت میرے خاندان تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔

واشنگٹن میں مقیم اُن کے بیٹے اور مشیر سجیب واجد نے پچھلے سال ’رائٹرز‘ کو بتایا تھا کہ اگر کہا گیا تو وہ پارٹی کی قیادت پر غور کر سکتے ہیں۔

شیخ حسینہ نے کہا کہ یہ میرے یا میرے خاندان کے بارے میں نہیں ہے، اگر بنگلہ دیش کو وہ مستقبل حاصل کرنا ہے جس کا ہم خواب دیکھتے ہیں، تو آئینی حکمرانی اور سیاسی استحکام کی بحالی ضروری ہے، کوئی ایک فرد یا خاندان ملک کے مستقبل کی تعریف نہیں کرتا۔

ان کے والد اور 3 بھائی 1975 میں ایک فوجی بغاوت میں قتل کر دیے گئے تھے، جب وہ اور ان کی بہن بیرونِ ملک تھیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ دہلی میں آزادانہ زندگی گزار رہی ہیں، لیکن اپنے خاندان کی پُرتشدد تاریخ کے پیشِ نظر محتاط رہتی ہیں۔

چند ماہ قبل ’رائٹرز‘ کے ایک صحافی نے انہیں دہلی کے تاریخی لودھی گارڈن میں چہل قدمی کرتے دیکھا تھا، جہاں دو افراد ان کے سیکیورٹی گارڈز معلوم ہو رہے تھے۔

انہوں نے راہ گیروں کو پہچاننے پر مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔

انہوں نے کہا کہ میں یقیناً وطن واپس جانا چاہوں گی، بشرطیکہ وہاں کی حکومت جائز ہو، آئین نافذ ہو، اور حقیقی امن و قانون قائم ہو۔

شیخ حسینہ کے فرار کے بعد عوامی لیگ کارکنوں کے خلاف تشدد کی لہر اٹھی تھی، تاہم اب حالات نسبتاً پُرسکون ہیں۔

البتہ، اس ماہ کے آغاز میں ریاستی اصلاحات کے منشور پر دستخط کے دوران جھڑپیں ہوئیں۔

’ہجوم پر فائر کھولنے‘ کے الزامات

حسینہ کا دفاع ایک سرکاری وکیل کر رہا تھا، مگر انہوں نے کہا کہ وہ صرف کسی غیر جانب دار عمل، جیسے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو تسلیم کریں گی۔

انہوں نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ یہ الزام کہ میں نے ذاتی طور پر سیکیورٹی فورسز کو ہجوم پر فائر کھولنے کا حکم دیا، بے بنیاد ہے، البتہ انہوں نے اعتراف کیا کہ ’کمان کے نظام میں کچھ غلطیاں ضرور ہوئیں‘۔

انہوں نے کہا کہ مگر مجموعی طور پر سینئر حکام کے فیصلے نیک نیتی پر مبنی تھے، حالات کے مطابق کیے گئے، اور جانی نقصان کو کم کرنے کے لیے تھے۔

استغاثہ نے عدالت میں پولیس کی تصدیق شدہ آڈیو ٹیپیں پیش کیں، جن میں حسینہ کو احتجاج کرنے والوں کے خلاف مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا حکم دیتے سنا گیا۔

حسینہ نے ان ریکارڈنگز کو ’سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کردہ‘ قرار دیا۔

انہوں نے اپنی برطرفی کے بعد حامیوں پر ہونے والے کریک ڈاؤن کا بھی ذکر کیا، خاص طور پر اس وقت جب سیکیورٹی فورسز نے فروری میں ’آپریشن ڈیول ہنٹ‘ کے نام سے کارروائی کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اسی دوران، ان کے دورِ حکومت میں لاپتہ ہونے والے سیکڑوں (بلکہ ہزاروں) افراد کی قسمت کے بارے میں انہوں نے کوئی تفصیل نہیں دی۔

اس ماہ کے آغاز میں، عوامی لیگ کے وکلاء نے آئی سی سی سے مبینہ ’انتقامی تشدد‘ کی تحقیقات کی درخواست کی ہے۔

اس میں ’تشدد اور قتل و غارت‘ کے الزامات شامل ہیں، جن کے بارے میں برطانوی وکیل اسٹیون پاؤلز کے سی نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ان کے انصاف کے امکانات ’نہ ہونے کے برابر‘ ہیں۔

آنے والے دنوں کے بارے میں ’اے ایف پی‘ کے سوال پر حسینہ واجد نے کہا کہ ’میری ترجیح بنگلہ دیش کی فلاح و استحکام ہے‘۔