ٹرمپ سے بے پروا چینی والدین کا اپنے بچوں کیلئے ’امریکی خواب‘ کا تعاقب
بیجنگ اور واشنگٹن کے تعلقات نچلی سطح پر ہونے کے باوجود شنگھائی کی رہائشی ہوانگ پُرعزم ہیں کہ ان کی بیٹی اپنی مہنگی تعلیم امریکا میں ہی مکمل کرے گی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اگرچہ دونوں ممالک نے اس سال کے بیشتر حصے میں ایک شدید تجارتی جنگ میں وقت گزارا ہے، امریکی اسکول اور جامعات اب بھی اُن والدین میں بےحد مقبول ہیں، جو اپنے بچوں کے لیے بہتر مواقع اور ایک بین الاقوامی نقطہ نظر کے خواہاں ہیں۔
ہوانگ ان بہت سے لوگوں میں شامل ہوں گی جو امید رکھتے ہیں کہ جمعرات کو جنوبی کوریا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پِنگ کے درمیان متوقع ملاقات (جو ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہوگی) تعلقات کو مستحکم کرنے کی راہ ہموار کرے گی۔
انہوں نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ اگرچہ اس وقت ڈرامائی صورتِ حال ہے، لیکن یہ سب عارضی ہے، یہ وہ بات ہے جس پر میرا پختہ یقین ہے۔
ان کی 17 سالہ بیٹی گزشتہ 3 سال سے امریکا کے ایک ہائی اسکول میں زیرِ تعلیم ہے اور وہاں کی کسی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس پڑھنے کی امید رکھتی ہے۔
ٹرمپ کی غیر متوقع فطرت اور اُن کی ’امریکا فرسٹ‘ کی پالیسیوں نے ہوانگ کے کچھ دوستوں کو خوف زدہ کر دیا ہے، جو اب اپنے بچوں کو یورپ یا آسٹریلیا بھیجنے پر غور کر رہے ہیں۔
لیکن ہوانگ کے لیے امریکی تعلیم کے فائدے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔
ہوانگ نے رازداری کے خدشے کی وجہ سے اپنا پورا نام ظاہر نہیں کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ امریکا ایک ایسا ملک ہے جو ہمارے بچے کو زیادہ مواقع فراہم کر سکتا ہے، اور وہاں کی تعلیم یقینی طور پر زیادہ متنوع ہے۔
البتہ، اس کے ساتھ ایک بھاری مالی بوجھ بھی جڑا ہے، ہوانگ کا اندازہ ہے کہ وہ اس وقت تعلیم اور رہائش کے اخراجات کی مد میں سالانہ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ ادا کر رہی ہیں۔
دولت مند والدین ‘فکر مند نہیں’
نوجوان چینی طلبہ طویل عرصے سے امریکی جامعات کے مالی استحکام کے لیے نہایت اہم رہے ہیں۔
انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کے مطابق بھارتی طلبہ کے بعد 24-2023 کے تعلیمی سال میں وہ بین الاقوامی طلبہ میں دوسری سب سے بڑی قومیت تھے، لیکن ٹرمپ نے ایسی پالیسیاں متعارف کرائی ہیں جن کا مقصد امیگریشن کو محدود کرنا اور یونیورسٹیوں کو کمزور کرنا ہے، جنہیں وہ بائیں بازو کا گڑھ سمجھتے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے مئی میں کہا تھا کہ واشنگٹن چینی طلبہ کے ویزے جارحانہ انداز میں منسوخ کرے گا۔
تاہم، چند ماہ بعد ہی ٹرمپ نے کہا کہ ملک 6 لاکھ چینی طلبہ کو آنے کی اجازت دے گا۔
بیجنگ کی ایک ٹیوشن ایجنسی میں کام کرنے والی گوڈوٹ ہان کے مطابق یہ غیر یقینی صورتحال بھی بہت سے چینی والدین کو باز نہیں رکھ سکی، ان کے سب سے دولت مند کلائنٹس خاص طور پر ’فکر مند نہیں ہیں‘۔
ہان نے کہا کہ وہ ’صرف ایک خبر پڑھ کر اپنے دیرینہ منصوبوں میں اچانک تبدیلی نہیں کرتے،ان کا اسکول جو ایک ترقی پاتی مقامی صنعت کا حصہ ہے، ہر سال تقریباً 200 چینی طلبہ کو امریکی یونیورسٹیوں کے داخلہ امتحانات کی تیاری کرواتا ہے۔
ایک نجی کلاس کا خرچ 112 سے 210 ڈالر فی گھنٹہ تک ہوتا ہے، اور کچھ طلبہ روزانہ کئی سیشن لیتے ہیں۔
کچھ والدین خاص طور پر امریکا میں اسکول فائرنگ کے واقعات اور ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کے باعث اپنے بچوں کی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں۔
ہان نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ بہت سے والدین کے دل میں ہمیشہ سے ہی ’امریکی خواب‘ رہا ہے۔
کبھی ‘ہنی مون پیریڈ’ نہیں رہا
سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے ڈیلن لوہ کے مطابق امریکی تعلیم کی پائیدار کشش اس کے ’معیاری تصور اور تاریخی شہرت‘ پر قائم ہے.
انہوں نے کہا کہ یہ شہرت اور وقار طویل عرصے سے قائم ہیں، اور واضح مشکلات کے باوجود اب بھی برقرار ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔
ایک اور والد، پنگ جیاچی نے کہا کہ امریکی یونیورسٹیاں ان کی 17 سالہ بیٹی میں ’آزادانہ سوچ‘ کو فروغ دینے میں مدد دے سکتی ہیں، ان کی بیٹی مشرقی ژیجیانگ صوبے کے ایک بین الاقوامی ہائی اسکول میں زیرِ تعلیم ہے۔
وہ گزشتہ سال براؤن یونیورسٹی میں سمر اسکول میں شریک ہوئی تھیں، اور امریکا کی کئی دیگر جامعات کا دورہ بھی کیا تھا، جہاں وہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی خواہش رکھتی ہیں۔
ان کے والد کا اندازہ ہے کہ ان کی پوری اعلیٰ تعلیم پر 4 لاکھ ڈالر سے زیادہ خرچ آئے گا۔
پنگ جیاچی، جو چینی طلبہ کو بیرونِ ملک تعلیم دلانے میں مدد کرنے والی ایک کنسلٹنسی چلاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کے امریکی دوستوں اور طلبہ کی روزمرہ زندگی پر ’ٹرمپ سے زیادہ فرق نہیں پڑا‘۔
انہوں نے کہا کہ جب میں سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ گزشتہ دہائی میں امریکا-چین تعلقات کبھی بھی واقعی اچھے نہیں رہے۔
’اصل میں کبھی کوئی ہنی مون پیریڈ تھا ہی نہیں‘۔