دنیا

امریکی پابندیاں: بھارتی ریاست کی شراکت دار ریفائنری نے روسی تیل کی خریداری روک دی

یہ فیصلہ امریکا، یورپی یونین (ای یو) اور برطانیہ کی جانب سے روسی خام تیل کی درآمد پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے بعد کیا گیا، ایچ سی پی ایل-متل انرجی

بھارتی ریاست کی شراکت دار ریفائنری ایچ پی سی ایل-مِتّل انرجی نے کہا ہے کہ اس نے روس کے 2 سب سے بڑی تیل کمپنیوں پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد روسی خام تیل کی خریداری روک دی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اگست میں واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات اس وقت بگڑ گئے تھے، جب ٹرمپ نے درآمدی محصولات کو 50 فیصد تک بڑھا دیا تھا، اور امریکی حکام نے بھارت پر الزام لگایا تھا کہ وہ روس کا رعایتی تیل خرید کر یوکرین میں ماسکو کی جنگ کو تقویت دے رہا ہے۔

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے ایک ممکنہ امریکی تجارتی معاہدے کے حصے کے طور پر روسی تیل کی درآمدات میں کمی پر رضامندی ظاہر کی ہے، تاہم نئی دہلی نے اس کی تصدیق نہیں کی۔

ایچ پی سی ایل-مِتّل انرجی لمیٹڈ جو اسٹیل ٹائیکون لکشمی نیواس مِتّل اور سرکاری ہندوستان پیٹرولیم کارپوریشن لمیٹڈ (ایچ پی سی ایل) کے درمیان ایک مشترکہ منصوبہ ہے، نے کہا کہ اس نے روسی خام تیل کی مزید خریداری معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بدھ کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ پچھلے ہفتے یہ فیصلہ امریکا، یورپی یونین (ای یو) اور برطانیہ کی جانب سے روسی خام تیل کی درآمد پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے بعد کیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایچ ایم ای ایل کی کاروباری سرگرمیاں بھارتی حکومت کی توانائی سلامتی کی پالیسی کے مطابق ہیں۔

بھارت میں روسی تیل کی سب سے بڑی خریدار رِیلائنس انڈسٹریز نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ واشنگٹن کی نئی پابندیوں اور یورپی یونین کی جانب سے عائد کردہ اقدامات کے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے۔

کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ ہم یورپی یونین کی ریفائن شدہ مصنوعات کی درآمد سے متعلق ہدایات پر عمل کریں گے، اور بھارتی حکومت کی ہدایات پر بھی عمل جاری رہے گا۔

یورپی یونین کی نئی پابندیوں میں 2026 کے اختتام تک روسی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمد پر مکمل پابندی شامل ہے۔

رِیلائنس نے کہا کہ اسے اپنے ’آزمودہ اور متنوع خام تیل کے حصول کے نظام‘ پر بھروسہ ہے، جو ریفائنری آپریشنز کے استحکام اور مقامی و برآمدی ضروریات (بشمول یورپ) کی تکمیل کو یقینی بنائے گا۔

بدھ کو فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ایچ ایم ای ایل کو روسی خام تیل کی کئی ترسیلات موصول ہوئی ہیں، جو ان جہازوں کے ذریعے کی گئیں جنہیں بعد میں امریکی اور یورپی یونین نے بلیک لسٹ کر دیا تھا۔

ایچ ایم ای ایل نے کہا کہ اس نے وہ جہاز چارٹر نہیں کیے تھے اور اسے نقل و حمل کے سلسلے میں محدود معلومات حاصل تھیں، کمپنی کے مطابق جس جہاز نے بھارت کو خام تیل پہنچایا تھا، اس پر ترسیل کے وقت امریکی پابندیاں عائد نہیں تھیں۔

بھارت دنیا کے سب سے بڑے خام تیل درآمد کنندگان میں شامل ہے، اپنی تیل کی ضرورت کا 85 فیصد سے زائد حصہ بیرونِ ملک سے حاصل کرتا ہے۔

روایتی طور پر مشرقِ وسطیٰ کے پروڈیوسرز پر انحصار کرنے والے نئی دہلی نے 2022 میں روسی تیل بڑے پیمانے پر خریدنا شروع کیا تھا، تاکہ مغربی پابندیوں کے باعث ماسکو کی رعایتی قیمتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔