امریکا کے جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کے دنیا پر ممکنہ اثرات کیا ہوں گے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ انہوں نے محکمہ دفاع کو ہدایت دی ہے کہ وہ دیگر جوہری طاقتوں کے ’برابری کی بنیاد‘ پر فوری طور پر جوہری ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرے، یہ ایک ایسا اقدام ہے، جو دہائیوں سے نافذ جوہری معاہدے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے جس نے دنیا بھر میں اس طاقت کو محدود رکھا ہے۔
اس فیصلے سے دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خدشات بڑھ گئے ہیں، خاص طور پر جوہری تخفیفِ اسلحہ کے معاہدے (این ڈی ٹی) کے ٹوٹنے کے خطرے کے باعث، جو کئی دہائیوں سے ان طاقتوں کو سخت نگرانی میں رکھے ہوئے ہے۔
امریکا دوبارہ جوہری تجربات کیوں شروع کر رہا ہے؟
انہوں نے لکھا کہ اس زبردست تباہ کن طاقت کی وجہ سے، میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا!
ٹرمپ نے مزید کہا کہ روس دوسرے نمبر پر ہے، اور چین کافی پیچھے تیسرے نمبر پر، لیکن 5 سال میں وہ برابر ہو جائے گا۔
تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے رپورٹ کیا کہ واشنگٹن بیسڈ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ روس کے پاس 5 ہزار 580 جوہری ہتھیار ہیں، جب کہ امریکا کے پاس 5 ہزار 225، دونوں ملک دنیا کے تقریباً 90 فیصد ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ یہ فیصلہ دیگر ممالک کے ’تجرباتی پروگراموں‘ کے جواب میں کیا گیا ہے، اور انہوں نے ہدایت دی ہے کہ امریکا بھی ’برابری کی بنیاد‘ پر تجربات کرے۔
یہ غالباً اس جانب اشارہ تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک روز قبل روس کے جوہری توانائی سے چلنے والے ’پوسائیڈن‘ سپر تارپیڈو کے کامیاب تجربے کا اعلان کیا تھا۔
رائٹرز کے مطابق پوسائیڈن ایک ’تارپیڈو اور ڈرون کے امتزاج جیسا جوہری ہتھیار‘ ہے، جو ساحلی علاقوں کو تابکار سمندری لہروں سے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار روایتی جوہری دفاع اور درجہ بندی کے اصولوں کو توڑتا ہے۔
اسی طرح، چین بھی جوہری اسلحے کی دوڑ میں امریکا کا اہم حریف ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق چین زمین پر نئے نیوکلیئر میزائل سائلوز تعمیر کر رہا ہے، جب کہ نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ صدر شی جن پنگ کے دور میں چین اپنی جوہری طاقت میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔
آج، ایپیک سمٹ کے موقع پر صدر ٹرمپ نے صدر شی سے ملاقات کے بعد چین پر عائد سخت تجارتی محصولات کم کرنے پر اتفاق کیا ہے، بدلے میں بیجنگ نے امریکی سویا بین کی خریداری دوبارہ شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کے ساتھ ساتھ جوہری کشیدگی میں اضافہ عالمی امن کے لیے تشویشناک اشارہ ہے۔
بعد ازاں، جب ٹرمپ سے ان کے جوہری تجربات سے متعلق تبصروں پر پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ چین سے متعلق نہیں تھا، یہ دوسروں کے بارے میں تھا، وہ سب جوہری تجربات کر رہے ہیں۔
جوہری معاہدہ دباؤ میں ہے
کمپری ہینسو نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی (سی ٹی بی ٹی) دنیا کے سب سے زیادہ تسلیم شدہ تخفیفِ اسلحہ کے معاہدوں میں سے ایک ہے، جس پر 187 ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں۔
اگرچہ امریکا نے اس کی توثیق نہیں کی، لیکن دستخط کنندہ ہونے کے ناطے وہ اس کی ’روح اور مقصد‘ کی خلاف ورزی نہ کرنے کا پابند ہے۔
بزنس انسائیڈر کے مطابق، امریکا نے آخری بار 1992 میں جوہری تجربہ کیا تھا، جب سرد جنگ کے اختتام پر کانگریس نے ایسے تجربات روکنے کی منظوری دی تھی، اسی سال اکتوبر میں صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے ان تجربات پر عارضی پابندی پر دستخط کیے تھے۔
معاہدے کے تحت امریکا اور روس دونوں نے اپنے فعال جوہری ہتھیاروں کی تعداد ایک ہزار 550 تک محدود رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
لیکن چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی جوہری صلاحیت نے واشنگٹن میں تشویش پیدا کر دی ہے کہ جلد ہی چین بھی اس سطح تک پہنچ سکتا ہے، جس سے یہ دوطرفہ معاہدہ تین فریقی جوہری مقابلے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے خبردار کیا کہ اگر امریکا نے دوبارہ جوہری دھماکوں والے تجربات شروع کیے تو یہ معاہدے کو مزید خطرے میں ڈال دے گا، جو دہائیوں سے صرف چند ممالک کو اس عمل سے روکنے میں کامیاب رہا ہے۔
ایک نئی جوہری دوڑ؟
عدم پھیلاؤ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی سائنسی مقصد ممکنہ طور پر عالمی ردعمل کے طوفان میں دب جائے گا۔
وہ خبردار کرتے ہیں کہ یہ اقدام دیگر بڑی جوہری طاقتوں کو بھی اپنے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا بہانہ دے سکتا ہے۔
کارنیگی اینڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے سینئر فیلو انکت پانڈا کے مطابق اگر امریکا نے واقعی جوہری تجربات شروع کیے تو یہ چین اور روس کو کھلی اجازت دینے کے مترادف ہوگا کہ وہ مکمل طاقت کے ساتھ جوہری تجربات دوبارہ شروع کریں، جو انہوں نے کئی برسوں سے نہیں کیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کا نظام اس وقت زبردست دباؤ میں ہے، روس، چین اور امریکا اس بات پر بھی متفق نہیں ہو پا رہے کہ اس نظام کو مؤثر رکھنے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں۔
دریں اثنا، بزنس انسائیڈر نے رپورٹ کیا کہ واشنگٹن میں بعض مشیروں نے امریکا کو مزید جارحانہ جوہری پالیسی اپنانے اور جدید جوہری حملہ کرنے کے نئے طریقے متعارف کرانے پر زور دیا ہے۔
اس کے نتیجے میں، ماہرین کو خدشہ ہے کہ دنیا ایک نئی جوہری دوڑ کے دہانے پر کھڑی ہے۔