دنیا

مصنوعی ذہانت سے خطرہ، ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالکان محفوظ پناہ گاہوں کی تعمیر میں مصروف

مصنوعی ذہانت سے لاحق بڑے پیمانے پر تباہی کے خطرات کے پیش نظر ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالکان ایسی جائیدادیں خرید رہے ہیں، جن کے ساتھ باقاعدہ تہہ خانے یا مشکل صورتحال میں پناہ لینے کی غرض سے بنائی گئی جگہیں ہیں

مصنوعی ذہانت سے لاحق بڑے پیمانے پر تباہی کے خطرات کے پیش نظر ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالکان ایسی جائیدادوں کی خریداری میں مصروف ہیں جن کے ساتھ باقاعدہ تہہ خانے یا مشکل صورتحال میں پناہ لینے کی غرض سے بنائی گئی جگہیں ہیں، ان میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ خاص طور سے قابل ذکر ہیں جو امریکی ریاست ہوائی میں اپنے 1400 ایکڑ رقبے پر پھیلے کمپاؤنڈ کی تعمیر کر رہے ہیں۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان ( اے پی پی ) نے برطانوی نشریاتی ادارے کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ اس کمپاؤنڈ میں ایک پناہ گاہ بھی ہے جو بجلی کی رسد اور خوراک کی فراہمی کے معاملے میں خودکفیل ہو گی ۔اس کمپاؤنڈ کے گِرد چھ فٹ اونچی دیوار ہے اور مارک زکر برگ کے ہمسائے اسے بنکر قرار دیتے ہیں۔

مارک زکربرگ نے کیلیفورنیا کے شہر پاؤلو آلٹو کے مضافات میں مزید 11 جائیدادیں خریدی ہیں جن میں 7000 مربع فٹ زیر زمین جگہ بھی ہے۔ مارک زکربرگ کے علاوہ دیگر ٹیکنالوجی کپمنیوں کے مالکان بھی ایسی زمینوں کی خریداری میں مصروف ہیں جن کے ساتھ باقاعدہ تہہ خانے یا مشکل صورتحال میں پناہ لینے کی غرض سے بنائی گئی بنکر نما جگہیں ہیں۔

لنکڈ ان کمپنی کے شریک بانی ریڈ ہیفمن نے ماضی میں دنیا میں بڑے پیمانے پر تباہی کے انشورنس کی بات کی تھی۔ اس سے قبل انہوں نے نیوزی لینڈ میں گھر بنانے کی بات کی بھی کی تھی جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ امیر ترین افراد کسی جنگ، ماحولیاتی تبدیلی یا پھر کسی اور ایسی تباہی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے باقی دنیا واقف نہیں ہے۔

گذشتہ کچھ برسوں کے دوران آرٹیفیشل انٹیلی جنس وہ واحد چیز ہے جو نئے خطرات کی فہرست میں شامل ہوئی ہے۔ کئی افراد کے لیے مصنوعی ذہانت کی تیر رفتار ترقی پریشانی کا باعث ہے۔

2023 کے وسط میں سان فرانسسکو کی ایک فرم نے چیٹ جی پی ٹی ریلیز کیا تھا اور اب دنیا کے کروڑوں افراد اسے استعمال کر رہے ہیں۔ کمپنی اس چیٹ بوٹ کو وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے اپ ڈیٹ بھی کر رہی ہے۔

صحافی کیرن ہؤ کی کتاب کے مطابق چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی سے وابستہ چیف سائنسدان ایلیا ستھسیکور اس بات سے متفق ہیں کہ سائنسدان ’آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس‘(اے جی آئی) بنانے کے بہت قریب ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جب مشین یا مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت کے برابر آ جائے گی۔

انھوں نے لکھا ہے کہ چیف سائنسدان ایلیا ستھسیکور نے اپنے ساتھیوں سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ کمپنی کو (اے جی آئی) کی ریلیز سے قبل اہم افراد کے لیے زیر زمین پناگاہیں بنانی چاہیئں۔ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ معروف اور بڑے سائنسدان اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے وہ مالکان جو آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر کام کر رہے ہیں، وہ بظاہر بہت خوفزدہ ہیں کہ نہ جانے ایک دن کیا ہو گا۔

اس صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس (اے جی آئی) کب آئے گی اور کیا اس کے آنے سے واقعی اتنی بڑی تبدیلی آئے گی کہ عام افراد اس سے خوفزدہ ہو جائیں گے۔ ٹیکنالوجی کے بڑے اداروں کے سربراہان کا کہنا ہے کہ اے جی آئی ناگزیر ہے۔

اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹ مین نے 2024 کے اختتام پر کہا تھا کہ یہ کئی افراد کے اندازوں سے بھی پہلے آ جائے گی۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اے جی آئی کے آنے میں پانچ سے دس سال لگیں گے جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ اے جی آئی سنہ 2026 تک ریلیز ہو سکتی ہے۔

خیال رہے کہ اے آئی دنیا میں تیزی سے بڑھنے والی ٹیکنالوجی ہے اور دنیا کی کئی کمپنیاں اے آئی پر کام کر رہی ہیں۔