دنیا

سوڈان: الفاشر شہر پر نیم فوجی دستوں کے قبضے کے بعد سیکڑوں مردوں کو گولی ماری گئی، عینی شاہدین

اونٹوں پر سوار جنگجوؤں نے تقریباً دو سو مردوں کو گھیر لیا اور انہیں ایک تالاب کے پاس لے گئے، جہاں انہوں نے نسل پرستانہ نعرے لگائے اور پھر گولیاں چلانا شروع کر دیں، عینی شاہد

سوڈان کے شہر الفاشر کے قریب گزشتہ ہفتےکے آخر میں اونٹوں پر سوار جنگجو تقریباً 2 سو مردوں کو ایک تالاب کے پاس لے گئے، جہاں انہوں نے نسل پرستانہ نعرے لگائے اور پھر ان پر گولیاں چلانا شروع کر دیں۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق الخیر اسمٰعیل نامی شخص نے مغربی دارفور ریجن کے قریبی قصبے تاویلہ میں رائٹرز کے ایک مقامی صحافی کو ویڈیو انٹرویو میں بتایا کہ اغوا کاروں میں سے ایک نے انہیں اسکول کے دنوں سے پہچان لیا اور جانے دیا۔

الخیر اسمٰعیل نے کہا کہ انہوں نے میرے دوستوں اور باقی سب کو مار ڈالا مگر اس اغوا کار کی وجہ سے میں بچ گیا۔

الخیر اسمٰعیل نے بتایا کہ وہ شہر میں موجود رشتہ داروں کے لیے کھانا لا رہے تھے، جب اتوار کو پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے شہر پر قبضہ کر لیا، اور اس وقت وہ بھی دوسرے حراست میں لیے گئے افراد کی طرح غیر مسلح تھے، تنازع کی وجہ سے رائٹرز فوری طور پر اس کے بیان کی تصدیق نہیں کر سکا، لیکن اسے صحافی سے حاصل کردہ پہلے مواد کی تصدیق ہو چکی ہے۔

الخیر اسمٰعیل ایسے چار عینی شاہدین اور چھ امدادی کارکنوں میں سے ایک ہیں، جن کا رائٹرز نے انٹرویو کیا، انہوں نے بھی بتایا کہ الفاشر سے فرار ہونے والے لوگوں کو قریبی دیہات میں جمع کیا گیا اور مردوں کو خواتین سے الگ کر دیا گیا۔

طویل عرصے سے سرگرم کارکن اور تجزیہ کار خبردار کرتے رہے ہیں کہ اگر آر ایس ایف الفاشر میں سوڈانی فوج کا آخری گڑھ پر قبضہ کرتے ہیں، تو نسلی بنیادوں پر انتقامی کارروائیاں ہو سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے جمعہ کو دیگر بیانات بھی شیئر کیے، جس میں اندازہ لگایا گیا کہ سیکڑوں عام شہری اور غیر مسلح افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہو گا، اس طرح کے قتل کو جنگی جرائم سمجھا جاتا ہے۔

آر ایس ایف کی الفاشر میں فتح سوڈان کی ڈھائی سالہ خانہ جنگی میں ایک سنگِ میل ہے، نے ایسے مظالم سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیانات اس کے دشمنوں کی طرف سے گھڑے گئے ہیں۔

رائٹرز نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی کم از کم تین ویڈیوز کی تصدیق کی ہے، جن میں آر ایس ایف کی وردی میں ملبوس افراد غیر مسلح افراد کو گولی مار رہے ہیں اور درجنوں دیگر ویڈیوز میں بظاہر گولی مارے جانے کے بعد لاشوں کے ڈھیر دکھائے گئے ہیں۔

آر ایس ایف کے ایک اعلیٰ سطح کے کمانڈر نے ان بیانات کو فوج اور اس سے منسلک جنگجوؤں کی طرف سے ’ میڈیا کی مبالغہ آرائی’ قرار دیا تاکہ ’ وہ الفاشر میں اپنی شکست اور نقصان کو چھپا سکیں۔’

انہوں نے کہا کہ آر ایس ایف کی قیادت نے آر ایس ایف کے ارکان کی جانب سے کسی بھی خلاف ورزی کی تحقیقات کا حکم دیا تھا اور کئی کو گرفتار کیا جا چکا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ آر ایس ایف نے لوگوں کو شہر چھوڑنے میں مدد کی ہے اور امدادی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ باقی ماندہ لوگوں کی مدد کریں۔

انہوں نے کہا کہ عام شہری بن کر آنے والے فوجیوں اور جنگجوؤں کو پوچھ گچھ کے لیے لے جایا گیا تھا، تبصرے کی درخواست کے جواب میں کمانڈر نے رائٹرز کو بتایا کہ ’جیسا کہ دعویٰ کیا گیا ہے، کوئی قتل نہیں کیا گیا۔‘

آر ایس ایف کا الفاشر پر قبضہ اس ملک کی جغرافیائی تقسیم کو مزید مضبوط کرتا ہے جو پہلے ہی دہائیوں کی خانہ جنگی کے بعد 2011 میں جنوبی سوڈان کی آزادی کے بعد کم ہو چکا ہے۔

29 اکتوبر کی رات ایک تقریر میں آر ایس ایف کے سربراہ محمد حمدان دگالو نے اپنے جنگجوؤں سے عام شہریوں کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ خلاف ورزی کرنے والوں پر مقدمہ چلایا جائے گا، انہوں نے حراست میں لیے جانے کی اطلاعات کا اعتراف کرتے ہوئے قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

الفاشر میں آر ایس ایف کی پیش قدمی روکنے والے زیادہ تر جنگجوؤں کا تعلق زاغاوا نسلی گروہ سے تھا، جن کی زیادہ تر عرب آر ایس ایف جنگجوؤں سے دشمنی 2000 کی دہائی کے اوائل سے ہے، جب انہیں جنجاوید ملیشیا کے طور پر دارفور میں مظالم کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔

دارفور کی صورتحال پر طویل عرصے سے نظر رکھنے والے ایلکس ڈی وال نے کہا کہ الفاشر میں رپورٹ ہونے والے آر ایس ایف کے اقدامات ’جینینا اور دیگر جگہوں پر کیے گئے اقدامات سے بہت ملتے جلتے‘ ہیں، جو اس حالیہ جنگ کے ابتدائی مراحل کے ساتھ ساتھ 2000 کی دہائی کے اوائل کے تنازع میں آر ایس ایف کے قبضے میں آنے والے ایک اور دارفور شہر کا حوالہ دے رہے تھے۔

امریکا نے کہا کہ آر ایس ایف نے جینینا میں نسل کشی کا ارتکاب کیا اور اس حملے کی بین الاقوامی فوجداری عدالت تحقیقات کر رہی ہے، سوڈانی فوج اور دیگر متحدہ عرب امارات پر آر ایس ایف کی حمایت کا الزام لگاتے ہیں، جبکہ خلیجی ریاست ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

’ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ زندہ ہیں‘

تاویلہ میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم نان وائلنٹ پیس فورس کی تحفظاتی مشیر میری بریس نے کہا کہ وہاں پہنچنے والے ’ عمومی طور پر خواتین، بچے اور بوڑھے مرد ہیں’ ، انہوں نے مزید کہا کہ آر ایس ایف کی طرف سے ٹرکوں میں کچھ لوگوں کو گارنے سے تاویلہ پہنچایا ہے جبکہ دیگر کو کہیں اور لے جایا گیا ہے۔

آر ایس ایف نے جمعرات کو ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی، جس میں کہا تھا کہ گارنے میں بے گھر ہونے والے لوگوں کو خوراک اور طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے، امدادی کارکنوں نے کہا کہ فورس ان لوگوں کو ان قصبوں میں رکھنا بھی چاہتی ہو گی جن پر اس کا کنٹرول ہے تاکہ غیر ملکی امداد حاصل کی جا سکے۔