عمران خان جب بھی دہشت گردی کے مسئلہ پر بولتے ہیں تو زمینی حقائق سے ان کی افسوس ناک حد تک لاعلمی ہمیں حیران کر دیتی ہے- ملک میں پرتشدد عسکریت پسندی کے بارے میں ان کی لن ترانیاں اور اس فتنہ کو ختم کرنے کا نسخہ خطرناک حد تک سادہ ہے- اسی لئے اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اگر ان کو پاکستانی طالبان کیلئے سب سے زیادہ نرم گوشہ رکھنے والا فرد سمجھا جاتا ہے-
وہ ہزاروں پاکستانی مردوں، عورتوں اور بچوں کے دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کو صرف اور صرف امریکی ڈرون حملوں اور افغانستان میں جاری جنگ کا نتیجہ اور وجہ قرار دیتے ہیں- پاکستان تحریک انصاف کے صدرکی نظر میں پاکستان کی ریاست کا غیر مشروط ہتھیار ڈال دینے کے علاوہ اس خونی کشمکش سے نکلنے کا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے-
عسکریت پسندوں کے ہاتھوں جنرل نیازی کے قتل کے تناظر میں ان کا جنگ بندی کا مطالبہ ان کی الجھی ہوئی ذہنی سوچ کا جیتا جاگتا ثبوت ہے اور پاکستان کے نازک ترین سیکیورٹی مسائل کے حوالے سے ان کے ادراک کا بھی- اپر دیر میں اس حملے سے ایک دن پہلے خیبر پختونخوا کی حکومت نے فوج کے دستوں کو مالاکنڈ سے نکل جانے کا حکم دیا-
اس قسم کا بے سوچا سمجھا فیصلہ خاص طور پر ایک طاقتور سویلین سیکیورٹی اور ایڈمنسٹریشن کی غیر موجودگی میں جہاں پچھلے ہفتے ریجنل کمانڈر کا قتل ہوا ہو اسی گروپ کے حوالے کردینا ہے جو اس قتل کا ذمہ دار تھا-
ان کی پارٹی نے طالبان کے اس مطالبے کی بھی حمایت کی ہے کہ فوج کے دستوں کو فاٹا کے قبائلی علاقوں سے بھی واپس بلا لینا چاہئے- اس قسم کی سوچ کے بعد اب کیا باقی رہ جاتا ہے یہ سمجھنے کے لئے کہ عمران خان کس طرف کھڑے ہیں-
جو بات سب سے خطرناک ہے، وہ ہے ان کا الٹا سیدھا (گنجلک) طرز فکر جو پورے پاکستان کی سوچ پر اثرانداز ہو رہا ہے اورجو پچھلی آل پارٹیز کانفرنس ریزولوشن کے متن سے ظاہر ہے جس کے مطابق عسکریت پسندی کو جائز قرار دیا گیا یہ کہہ کر کہ طالبان دہشت گرد بھی امن کے عمل میں ایک فریق ہیں-
شروع دن سے اس ناقابل عمل امن کوششوں پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی ہے جسے کل پارٹی کانفرنس کی پوری حمایت حاصل تھی- اور طالبان نے بھی حکومت کی کمزوری جان کراپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں- اس ریزولوشن نے جسے دراصل "ہتھیار ڈالنے کی دستاویز" کہنا چاہئے پوری قوم کی دہشت گردوں سے لڑنے کی ہمت اور قوت کوجھنجھوڑ کررکھ دیا ہے-
حکومت کے اس کمزور ردعمل نے جو اس نے اپنے ایک سینئر فوجی افسرکے قتل پردکھایا ہے فوجی اور سویلین اداروں کے سربراہوں کے درمیان کی دوری کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے-
جنرل کیانی کا یہ بیان کہ فوج طالبان کے اس مطالبہ کومکمل طور پر مسترد کرتی ہے اے پی سی کے ریزولوشن سے مکمل روگردانی ہے-
یہ فوج کی صفوں میں اس بڑھتے ہوئے فرسٹریشن کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جس کی وجہ وہ تمام خطرات اور مشکلات ہیں جو قومی قیادت کی ناسمجھی خصوصاً دہشت گردی کے مسئلے کے حوالے سے ملکی سلامتی اور وحدت کو درپیش ہیں-
عسکریت پسندوں کے لئے اس سے زیادہ خوشی کی اور کونسی بات ہوسکتی ہے- ٹال مٹول کرنے والی ایسی سیاسی قیادت جس میں سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت ہی نہ ہو-
دہشت گردی اور شدت پسند عسکریت سے کامیابی سے لڑنے کے لئے عمران خان اور ان جیسے لوگوں کے جن میں پی ایم ایل ن بھی شامل ہے کے ڈھول کا پول کھولنا سب سے زیادہ ضروری ہے-
سب سے پہلی بات تو یہ غلط دلیل ہے کہ دہشت گردی اور نسلی تشدد پسندی کی وجہ صرف اور صرف افغانستان میں امریکی مداخلت اورقبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ہیں-
پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں اس سے بہت زیادہ گہری ہیں- یہ علیحدہ بات ہے کہ افغانستان کے حالات نے اسے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے لیکن یہ اس مسئلہ کی وجہ ہرگز نہیں ہے- زیادہ تر عسکری گروہ جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں اور وہ جو پاکستانی فوج سے نبرد آزما ہیں کافی عرصے تک ملک کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں دوسرے ملکوں میں جہاد کرنے میں مصروف رہے-
ان میں سے بہت سوں کے القاعدہ سے گہرے رابطے تھے اور اس کے بعد یہ صرف وقت کی بات تھی کہ انہوں نے اپنی بندوقوں کا رخ اپنے سرپرستوں کی جانب کرلیا-
عمران خان اور دوسرے وہ تمام لوگ جو افغانستان میں امریکی مداخلت کی پاکستانی حمایت کو اس جنگ کی وجہ قرار دیتے ہیں یا تو نہایت معصوم ہیں یا حالات کو توڑ مروڑ کر دہشت گردی کے اقدامات کو جواز بخشنے کی کوشش کرتے ہیں-
سچ تو یہ ہے کہ 9/11 کی دہشت گردی اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے بعد پاکستان کے پاس امریکہ کی حمایت کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ بچا ہی نہیں تھا- ویسے ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اس وقت عمران خان نے پرویز مشرف کے فیصلے کی حمایت کی تھی-
یہ پھر ایک غلط دلیل ہے کہ اگر پاکستان اس امریکی جنگ سے اپنے آپ کو لاتعلق کر لیتا ہے تو پاکستان میں دہشت گردی ختم ہو جائیگی- سب سے پہلے تو یہ کہ پاکستان اس جنگ کا حصہ کب ہے؟ بلکہ پاکستان پر تو اکثر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ غیرملکی افواج کے خلاف بغاوت کی جنگ میں طالبان کی حمایت کرتا ہے-
دوسرے یہ کہ امریکہ اگلے سال کے آخیر تک افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانا چاہتا ہے اور یہ بات پاکستان کے مفاد میں ہے کہ اس صورت میں جنگ کے اثرات سے بدحال ملک کو سیاسی طور پر حالات کو کنٹرول کرنے میں معاونت کرے- کیا عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان طالبان کے ساتھ ملکرغیرملکی فوجوں سے لڑے؟
اور ایک دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ پاکستانی طالبان کی دہشت گردی قبائلی علاقوں میں امریکن ڈرون حملوں کے جواب میں ہے- اس مفروضہ کی کوئی عملی توجیح نہیں ہے- یقینی طور پر ڈرون حملے پاکستانی ریاست کی حاکمیت کے خلاف ہیں اور ان کو بند ہونا چاہئے- یہ بھی درست ہے کہ سویلین ہلاکتوں سے شدید سیاسی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں لیکن اس دہشت گردی کوان ڈرون حملوں کا سبب بتانا مبالغہ آمیز بات ہے-
ریکارڈ کو درست کرنے کی خاطر، 2004 سے 2009 کے درمیان صرف چھ ڈرون حملے ہوئے تھے اور سوائے ڈاماڈولا کے واقعہ کہ کسی میں ایک سویلین موت بھی رپورٹ نہیں کی گئی تھی-
مگردہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات اسی دور میں ہوئے جس میں سویلین، سیکیورٹی ادارے اور تنصیبات ان کا نشانہ بنیں-
خیبرپختونخوا کے زیادہ تر قبائلی علاقے اور مالاکنڈ ڈویژن طالبان کے اثرورسوخ کے اندر آگئے تھے، پشاور تقریباً ان کے محاصرے میں تھا اور تشدد پسند دارالحکومت کے قریب کے علاقوں تک پہنچ گئے تھے- اور پھر فوجی آپریشن کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ ریاست ان علاقوں پر اپنا اختیار بحال کرنے میں کامیاب ہوئی-
اس لئے یہ کہنا کہ فوجی کارروائی سے کچھ حاصل نہیں ہوا بالکل غلط تاثر ہے- حقیقت یہ ہے کہ امن معاہدوں کی وجہ سے طالبان کو اپنے آپ کو دوبارہ مستعدی سے جمع ہو کرمنظم ہونے کا موقع مل گیا اور یہ نئے امن مذاکرات ان کو وہی موقع پھر فراہم کرینگے-
عمران خان کے خواب آور بیانات طالبان اور دوسرے عسکری گروہوں کی معاونت کے لئے ہیں جنہوں نے ریاست کے خلاف اعلان جنگ کیا ہوا ہے- جو چیز داؤ پر لگی ہوئی ہے وہ ہے جمہوریت اور ملک کا استحکام!
ترجمہ: علی مظفر جعفری