پاکستان اور امریکا کا مضبوط اسٹریٹجک اقتصادی شراکت داری کے قیام پر اتفاق
پاکستان اور امریکا نے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، جب کہ اسلام آباد کے سفیر نے اس پیش رفت کو ایک ’اقتصادی طور پر مضبوط اسٹریٹجک شراکت داری‘ کی تعمیر کی کوشش قرار دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت اُس وقت سامنے آئی ہے، جب 22 اکتوبر کو جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے لیے امریکی معاون وزیرِ خارجہ کا عہدہ سنبھالنے والے ایس۔ پال کپور نے پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ سے امریکی محکمہ خارجہ میں ملاقات کی، ملاقات کو خوشگوار اور مستقبل پر محیط تبادلہ خیال قرار دیا گیا۔
سفیر رضوان سعید شیخ نے کہا کہ دونوں فریقین نے حالیہ اعلیٰ سطح کے سیاسی عزم کو عملی تعاون میں تبدیل کرنے کے قابلِ عمل طریقوں پر غور کیا۔
انہوں نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے پاکستان-امریکا تعلقات کو مزید آگے بڑھانے اور اپنے ممالک کو زیادہ خوشحال اور محفوظ بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔
ایس- پال کپور کی سفیر شیخ سے ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب واشنگٹن اور اسلام آباد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ کے دوران اپنے تعلقات کو ازسرِ نو ترتیب دے رہے ہیں۔
کئی برسوں کی غیر یقینی اور باہمی بداعتمادی کے بعد، دونوں ممالک اب روایتی سیکیورٹی تعلقات کے ساتھ ساتھ اقتصادی تعاون پر بھی زور دے رہے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں، امریکی حکام نے پاکستان کے خطے کے استحکام میں ممکنہ کردار اور جنوبی و وسطی ایشیا میں اقتصادی و توانائی منصوبوں میں اس کے تعاون کی صلاحیت پر روشنی ڈالی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی کمپنیوں کو بھی پاکستان کے بنیادی ڈھانچے، معدنیات، اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کی ترغیب دی ہے۔
اسلام آباد کے لیے، واشنگٹن کے لہجے میں یہ نرمی امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو متنوع بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے، جب کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے چین پر انحصار میں کمی لانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
دونوں دارالحکومتوں کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ تعلقات کو صرف امداد یا انسدادِ دہشت گردی کے تعاون تک محدود رکھنے کے بجائے تجارت، سرمایہ کاری، اور طویل المدتی ترقی پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں، امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا تھا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کو وسعت دینے کا موقع دیکھ رہا ہے، تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری واشنگٹن کے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر نہیں آئی۔
صدر ٹرمپ بارہا اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ کو روکنے، خصوصاً اس سال مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان مختصر مگر شدید فوجی تصادم کے بعد اُن کا کردار اہم تھا۔
کئی عوامی بیانات میں اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی انتظامیہ کی تیز سفارتی کوششوں نے ’ایک ایٹمی تنازع کو روک دیا‘، اور کہا کہ ’پاکستان نے بھارت کے 8 طیارے مار گرائے‘۔
اگرچہ بھارت نے ٹرمپ کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی، لیکن اُن کے بار بار کے حوالے واشنگٹن کی جنوبی ایشیا میں استحکام کے لیے نئی دلچسپی اور دونوں دارالحکومتوں سے براہِ راست رابطہ برقرار رکھنے کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
نئے لہجے کے باوجود، تعلقات کو موجودہ رفتار پر برقرار رکھنے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ واشنگٹن اب بھی پاکستان کو بھارت اور چین کے درمیان اپنے اسٹریٹجک مفادات کو متوازن رکھتے ہوئے ایک علاقائی تناظر میں دیکھتا ہے، جب کہ اسلام آباد چاہتا ہے کہ اس کی اقتصادی اور جیوپولیٹیکل اہمیت کو وسیع تر تسلیم کیا جائے۔