دنیا

کاپ 30 کے میزبان برازیل نے موسمیاتی معاہدے کا پہلا مسودہ پیش کردیا

مسودے کے متن میں حساس نکات، تجارتی اقدامات، غریب ممالک کیلئے مالیاتی معاونت اور کاربن میں کمی کے عالمی سطح پر ناکافی اہداف پر متعدد امکانات کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔

منگل کے روز کاپ 30 کے میزبان برازیل نے اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات میں شامل ممالک کے درمیان ایک سمجھوتے کا پہلا مسودہ پیش کر دیا، اختلافی نکات پر مذاکرات رات گئے تک جاری رہے۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اس مسودے میں مشکل ترین معاملات پر متعدد اختیارات شامل ہیں، جو بیلم میں موجود تقریباً 200 ممالک کے درمیان گہری خلیج اور آخری سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے اب بھی درپیش کام کو ظاہر کرتے ہیں۔

9 صفحات پر مشتمل گلوبل موتیراؤ دستاویز (جو ایک مقامی تصور یعنی مشترکہ مقصد کے لیے یکجا ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہے) اس وقت سامنے آئی، جب برازیل نے پیر کے روز مندوبین پر زور دیا کہ وہ ہفتے کے درمیان تک معاہدہ تیار کرنے کے لیے دن رات کام کریں۔

متن میں بیلم کے حساس نکات، تجارتی اقدامات، غریب ممالک کے لیے مالیاتی معاونت، اور کاربن میں کمی کے عالمی سطح پر ناکافی اہداف پر متعدد امکانات کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

مبصرین نے کہا کہ ان پیچیدہ نکات پر مسودے کی تیزی سے تیاری یہ ظاہر کرتی ہے کہ کاپ 30 کی صدارت کو جلد ہی نتیجہ حاصل ہونے کا اعتماد ہے۔

ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ماہرِ موسمیات لی شو نے کہا کہ یہ پچھلے متن سے واضح پیش رفت کی نمائندگی کرتا ہے، اور غالباً حالیہ سی او پیز کی تاریخ میں اتنی جلدی اس قدر صاف مسودہ جاری ہونے کی مثالوں میں سے ایک ہے۔

مسودہ اُس واضح تقسیم کو بھی ظاہر کرتا ہے جو ایک ایسے اتحاد کے درمیان ہے جو فوسل فیول کے خاتمے کے لیے ’روڈ میپ‘ کا مطالبہ کرتا ہے، اور دوسرا بلاک جو تیل پیدا کرنے والے ممالک کی قیادت میں ہے اور اس قسم کی کسی کوشش کی مخالفت کرتا ہے۔

اس میں ایک اختیاری ورکشاپ کی تجویز بھی شامل ہے جس میں کم کاربن حلوں پر بحث کی جائے، یا وزارتی سطح کے ایک اجلاس کی تجویز ہے، جس میں ایسے راستوں پر بات کی جائے جو ممالک کو فوسل فیول پر اپنے انحصار کو بتدریج کم کرنے میں معاون ہوں، ایک تیسرا اختیار یہ بھی پیش کرتا ہے کہ اس موضوع پر کوئی متن شامل ہی نہ کیا جائے۔

مسودہ یہ امکان بھی اٹھاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ممالک کے قومی سطح کے وعدے ہر 5 سال کے بجائے ہر سال جانچے جائیں، تاکہ گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کے عالمی پیش رفت کا زیادہ کثرت سے جائزہ لیا جاسکے۔