جی ایس پی پلس جائزے سے قبل پاکستان کو ’مزید اقدامات‘ کرنے کی ضرورت ہے، سفیر یورپی یونین
یورپی یونین کے سفیر ریمونڈاس کاروبلس نے کہا ہے کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس ترجیحی ٹیرف اسکیم کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اس پر جلد ہی نظرثانی ہونے والی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق ڈان نیوز ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جب سفیر کاروبلس سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کو اسکیم کی شرائط پوری کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں، ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعد ازاں ایک رپورٹ جاری کی جائے گی، جس میں اقوام متحدہ کے ان اداروں کی سفارشات شامل ہوں گی جو ان کنونشنز پر عمل درآمد کی نگرانی کرتے ہیں۔
اکتوبر 2023 میں، یورپی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر اس اسکیم کو 2027 تک بڑھانے کے حق میں ووٹ دیا تھا، جس سے پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کو زیادہ تر برآمدات پر ڈیوٹی فری یا کم ڈیوٹی تک رسائی برقرار رکھنے کی اجازت ملی تھی۔
ایران-اسرائیل تنازع کے باعث جون سے التوا کا شکار جی ایس پی پلس مانیٹرنگ مشن اب پاکستان میں انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات اور اچھی حکمرانی سے متعلق 27 بین الاقوامی کنونشنز پر عمل درآمد کی جانچ کرے گا، جن پر اس تجارتی اسکیم کی بنیاد ہے۔
تشویش کے شعبوں کا ذکر کرتے ہوئے، سفیر نے انسانی حقوق، سزائے موت، توہینِ مذہب کے قوانین، جبری گمشدگیوں، اقلیتوں کے حقوق، خواتین کے حقوق، چائلڈ لیبر اور جبری مشقت جیسے معاملات کی نشاندہی کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ غالباً موجودہ جی ایس پی پلس اسکیم کا آخری مانیٹرنگ مشن ہوگا، کیوں کہ نئی اسکیم جلد، ممکنہ طور پر 2027 سے نافذ ہونے والی ہے، اور اگر پاکستان جی ایس پی پلس سہولت جاری رکھنا چاہتا ہے تو اسے دوبارہ درخواست دینا ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ مانیٹرنگ مشن کی رپورٹ اقوام متحدہ کے حوالے سے پاکستان کی پیش رفت اور اس کی ذمہ داریوں پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے انتہائی اہم ماخذ ہوگی۔
کاروبلس نے کہا کہ یورپی یونین نے پہلے ہی وہ اہم امور شناخت کر لیے ہیں، جن پر وہ پاکستان سے پیش رفت چاہتی ہے، اگرچہ یورپی یونین ’کچھ مثبت پیش رفت‘ بھی دیکھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ یورپی یونین کی ’ترجیحات‘ میں شامل ہے، ہمارے سوالات موجود ہیں اور ہمیں جی ایس پی پلس کے تناظر میں اس سلسلے میں مسائل نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یقیناً ہم سمجھتے ہیں کہ جبری گمشدگیوں پر اکوائری کمیشن کی طرح کچھ ڈھانچے قائم کیے گئے ہیں، لیکن ہم دیکھیں گے کہ آیا یہ کافی ہیں یا نہیں، یقیناً ہمیں اداروں سے اس بارے میں بہت سے سوالات ہوں گے۔
حالیہ منظور شدہ 27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں پوچھے جانے پر سفیر نے اسے ’اندرونی معاملہ‘ قرار دیا، لیکن عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے کہا کہ ’ہماری مختلف رائے ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ یورپی یونین پاکستان میں اپوزیشن، تھنک ٹینکس، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی اداروں سے بھی رائے لے رہی ہے، انہوں نے حالیہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات پر بھی گفتگو کی ضرورت پر زور دیا۔
اگست میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے سابق یورپی یونین سفیر رینا کینکا نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ انسانی حقوق اور محنت سے متعلق اصلاحات میں ’قابلِ یقین‘ اور ’واضح‘ پیش رفت دکھائے، اور یہ اشارہ دیا تھا کہ یورپی یونین کی نئی تجارتی اسکیم سخت تر تقاضے رکھے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کو مزید واضح پیش رفت دکھانے کی ضرورت ہے، خصوصاً نومبر میں ہونے والے جی ایس پی پلس مانیٹرنگ مشن سے پہلے۔‘‘
اسی طرح، جنوری میں یورپی یونین نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے جی ایس پی درجے کو یقینی نہ سمجھے۔
یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی برائے انسانی حقوق اولوِف اسکوگ نے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ عام شہریوں کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے فوجی عدالتوں کا استعمال نہ کرے اور اظہارِ آزادی کو محدود کرنے کے حالیہ اقدامات کی مخالفت کی تھی۔