دنیا

وزیرِ اعلیٰ مقبوضہ کشمیر کی بھارت میں بڑھتے مسلم مخالف جذبات کی مذمت

ایک میڈیکل کالج میں یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلمان اور غیر ہندو طلبہ یہاں نہیں پڑھ سکتے، اگر فیصلے مذہب کی بنیاد پر ہوں گے تو آئین کہاں جائے گا؟ عمرعبداللہ

مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بدھ کے روز طلبہ کے داخلوں میں مذہب کی بنیاد پر امتیاز کی شدید مخالفت کی اور سوال اٹھایا کہ اگر میرٹ کو نظرانداز کر دیا جائے تو آئین کا کیا بنے گا؟

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق انہوں نے کہا کہ ایک میڈیکل کالج میں یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلمان اور غیر ہندو طلبہ یہاں نہیں پڑھ سکتے، اگر فیصلے مذہب کی بنیاد پر ہوں گے تو آئین کہاں جائے گا؟

یہ تنازع شری ماتا ویشنو دیوی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ایکسیلینس میں داخلوں سے متعلق ہے، جہاں 50 میں سے 42 سیٹیں میرٹ کی بنیاد پر مسلمان طلبہ کو ملی ہیں، اس پر بی جے پی اور ہندو انتہا پسند گروہوں نے احتجاج کیا ہے۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ یومِ آئین کو محض رسمی دن نہ بنایا جائے، بلکہ ہر روز آئین پر عمل ضروری ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ آئین ہر مذہب کو برابر کا درجہ دیتا ہے اور ہر شہری کے بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ تعلیم سمیت ہر شعبے کو مذہبی عینک سے دیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ داخلے مذہب پر نہیں بلکہ میرٹ پر ہوں گے، اگر کسی کو اعتراض ہے تو سپریم کورٹ جا کر چیلنج کرے۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر مسلمانوں کو نہیں پڑھانا تو اسے اقلیتی ادارہ قرار دے دیں، وہ کہیں اور پڑھ لیں گے، بنگلہ دیش یا ترکیہ چلے جائیں گے۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ پر تشویش

پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ میں بیان کردہ سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے الزام لگایا ہے کہ پہلگام حملے کے بعد بھارت نے تقریباً 2 ہزار 800 افراد، بشمول صحافی، طلبہ اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو بلاجواز گرفتار کیا ہے۔

پاکستان نے کہا کہ رپورٹ سے بھارت کے مظالم کا ایک بار پھر پردہ فاش ہوا ہے۔