پاکستان کی تاجکستان میں چینی باشندوں پر افغانستان سے ڈرون حملے کی شدید الفاظ میں مذمت
پاکستان نے تاجکستان میں 3 چینی باشندوں کی ہلاکت کا سبب بننے والے ڈرون حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اس واقعے میں مسلح ڈرون کے استعمال نے ’افغانستان سے درپیش خطرے کی سنگینی اور اس کے پس پردہ عناصر کی ڈھٹائی‘ کو واضح کر دیا ہے۔
تاجک حکام نے جمعرات کو بتایا کہ تاجکستان میں ایک چینی کمپنی کے 3 کارکن افغانستان کی سرحد کے قریب ہونے والے ایک حملے میں مارے گئے، وزارتِ خارجہ کے مطابق، ملک کے جنوبی حصے میں چینی کمپنی کے کارکنوں پر ڈرون اور آتشیں اسلحے سے حملہ کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے ’ آتشیں اسلحے اور دستی بم سے لیس ڈرون کے ذریعے کیے گئے اس حملے میں چینی شہریت رکھنے والے 3 ملازمین جاں بحق ہوئے‘، دوشنبے عام طور پر ایسے واقعات پر سرکاری طور پر تبصرہ نہیں کرتا اور اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس کو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔
بعد ازاں، پاکستان کے دفترِ خارجہ نے جمعہ کی صبح جاری بیان میں اس ’بزدلانہ دہشت گرد حملے‘ میں چین اور تاجکستان کے شہریوں کی ہلاکت پر تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ ’پاکستان اس بزدلانہ حملے کی دوٹوک الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اس واقعے میں مسلح ڈرون کے استعمال نے افغانستان سے درپیش خطرے اور اس کے پس پردہ عناصر کی ڈھٹائی کو نمایاں کیا ہے‘۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے ’ایک ایسے ہمسائے کے طور پر جو افغان سرزمین سے منظم دہشت گرد حملوں کا بارہا نشانہ بنا ہے، پاکستانی عوام اپنے چینی دوستوں اور تاجک شراکت داروں کے غم اور تکلیف کو پوری طرح محسوس کرتے ہیں‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان مسلسل اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ افغان سرزمین کو اپنے ہمسایوں یا کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے، افغان سرزمین کا دہشت گرد عناصر کی جانب سے بار بار استعمال اور ان کی افغان طالبان حکومت کی سرپرستی میں موجودگی پورے خطے اور عالمی برادری کے لیے باعثِ تشویش ہے‘۔
دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ افغان سرزمین سے حملہ کرنے والے دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور مالی معاونین کے خلاف ٹھوس اور قابلِ تصدیق کارروائی ہی اس بڑھتے ہوئے خطرے کا واحد حل ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان امن، استحکام اور سلامتی کے فروغ کے لیے چین، تاجکستان اور دیگر علاقائی شراکت داروں کے ساتھ قریبی تعاون جاری رکھے گا‘۔
پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات حالیہ عرصے میں کشیدہ ہوئے ہیں کیونکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) دونوں ملکوں کے درمیان اہم تنازع کا سبب بنی ہوئی ہے۔
پاکستان کا مطالبہ ہے کہ کابل کی حکومت سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے لیے مؤثر کارروائی کرے، لیکن افغان طالبان اسلام آباد کے اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کو پاکستان پر حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے دی جاتی ہے۔
گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی آئی ایس آئی ایل (داعش) اور القاعدہ پر پابندیوں سے متعلق کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ڈنمارک نے وسطی اور جنوبی ایشیا میں ٹی ٹی پی کے ’سنگین خطرے‘ کی نشاندہی کی اور کہا تھا کہ یہ گروہ افغان حکام کی جانب سے ’لاجسٹک اور خاطر خواہ مدد‘ حاصل کر رہا ہے۔
دریں اثنا، مسلم اکثریتی ملک تاجکستان، جو سابق سوویت یونین کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے، 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
عسکریت پسند دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 1350 کلومیٹر طویل پہاڑی سرحدی علاقے میں سرگرم ہیں۔
تاجکستان کے 1992 سے برسرِ اقتدار صدر امام علی رحمٰن طالبان پر کھلی تنقید کرتے ہیں اور گروہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ نسلی تاجکوں کے حقوق کا احترام کرے جو افغانستان کی 4 کروڑ آبادی کا تقریباً چوتھائی حصہ ہیں۔
اسی وقت، تاجکستان نے کچھ شعبوں میں محتاط انداز میں رابطے بھی قائم کیے ہیں، جن میں سفارتی ملاقاتیں، سرحدی قصبوں میں منڈیوں کا قیام اور بجلی کی فراہمی شامل ہے۔
جمعرات کو تاجک وزارتِ خارجہ نے کہا کہ ’پڑوسی ملک (افغانستان) میں موجود جرائم پیشہ گروہ سرحدی علاقوں میں صورتحال کو غیر مستحکم کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں‘۔