دنیا

امریکا میں فوائد منجمد کیے جانے کے بعد تمام ممالک کے شہریوں کے پناہ کے کیسز مؤخر

یو ایس سی آئی ایس کو 20 جنوری 2021 یا اس کے بعد امریکا آنے والے 19 ممالک کے شہریوں کو دی گئی امیگریشن سہولتوں کو دوبارہ کھولنے اور جانچ کرنے کا حکم

ٹرمپ انتظامیہ نے کئی دہائیوں میں امیگریشن فوائد پر سب سے بڑی اندرونی پابندی نافذ کرتے ہوئے امریکی شہریت و امیگریشن سروسز (یو ایس سی آئی ایس) کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام پناہ گزین (اسائلم) درخواستوں کی کارروائی روک دے، اور 19 ’خطرناک‘ ممالک کے شہریوں کی مختلف اقسام کی درخواستوں کو معطل کر دے، جب کہ پہلے سے منظور شدہ ہزاروں کیسوں کو دوبارہ سیکیورٹی اسکریننگ کے لیے کھولا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ حکم نامہ اس ہفتے یو ایس سی آئی ایس کے فیلڈ دفاتر کو جاری کیا گیا ہے، جو افغان شہریوں سے متعلق چند پرتشدد واقعات کے بعد سامنے آیا ہے، افغان شہری گزشتہ پروگراموں کے تحت امریکا میں داخل ہوئے تھے۔

ان کیسوں نے وائٹ ہاؤس کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ 2021 سے 2024 کے دوران تصدیقی عمل ’خطرناک حد تک ناکافی‘ رہا، جس کے باعث امیگریشن اسکریننگ کے نظام کی ہمہ گیر ازسرِ نو ترتیب ضروری ہوگئی ہے۔

یہ اقدام صدارتی پروکلیمیشن 10949 کا داخلی ہم منصب ہے، جس نے جون میں 19 ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی، اب انہی قومیتوں کو امریکا کے اندر وسیع پابندیوں کا سامنا ہے۔

ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم پہلے ہی تجاویز دے چکی ہیں کہ سفری پابندی کی فہرست کو 30 سے زائد ممالک تک بڑھایا جائے۔

’ایکس‘ پر اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’ہمارے آباؤ اجداد نے اس قوم کو خون، پسینے اور آزادی کی لازوال محبت سے تعمیر کیا، یہ اس لیے نہیں کہ غیر ملکی حملہ آور ہمارے ہیروز کو قتل کریں، ہمارے خون پسینے کی کمائی کو چوسیں، یا امریکیوں کے لیے مختص فوائد پر قبضہ کریں، ہم انہیں اپنے ملک میں نہیں چاہتے، ایک کو بھی نہیں۔

یہ بیان انہوں نے پیر کے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد جاری کیا، جنہوں نے بھی امیگریشن قوانین سخت کرنے سے متعلق متعدد ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں۔

یو ایس سی آئی ایس میمو میں افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تمام پناہ گزین درخواستیں پر فوری طور پر روک دیں، خواہ درخواست گزار کسی بھی ملک سے ہو، اس میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جنہیں عام طور پر سیکیورٹی خدشات سے وابستہ نہیں سمجھا جاتا۔

امیگریشن وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس نوعیت کی ملک گیر معطلی سے پہلے کبھی واقف نہیں۔

حکم نامہ 19 پابندی والے ممالک کے شہریوں کی جانب سے دائر تمام امیگریشن فائدے کی درخواستوں کو بھی معطل کرتا ہے، ان میں گرین کارڈ درخواستیں، متبادل گرین کارڈ، سفری دستاویزات، پیرول توسیعات اور نیشنلٹی کے لیے مستقل رہائش برقرار رکھنے کی درخواستیں شامل ہیں۔

حتیٰ کہ معمول کی خدمات (جیسے گم شدہ گرین کارڈ کی جگہ نیا کارڈ جاری کرنا) بھی روک دی گئی ہیں۔

سب سے دور رس اقدام سابقہ منظوریوں کا ازسرِ نو جائزہ ہے۔

یو ایس سی آئی ایس افسران کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ 20 جنوری 2021 یا اس کے بعد امریکا آنے والے فہرست میں شامل ممالک کے شہریوں کو دی گئی تمام منظور شدہ امیگریشن سہولتوں کو دوبارہ کھولیں اور جانچ کریں۔

متعدد کیسوں میں لازمی انٹرویو (بغیر کسی استثنیٰ) درکار ہوگا، اور اگر کسی مرحلے پر تشویش سامنے آئی تو کیسز کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔

میمو میں کہا گیا ہے کہ یہ تبدیلی 2 حالیہ واقعات کے بعد شروع ہوئی ہے، ناصر احمد توحیدی کا قصوروار ٹھہرنا، جس پر الیکشن ڈے 2024 پر داعش سے متاثر حملے کی سازش کا الزام تھا، اور رحمٰن اللہ لکانوال کی گرفتاری، جس پر واشنگٹن میں ایک نیشنل گارڈ اہلکار کے قتل کا الزام ہے، یہ دونوں افراد 2021 کے بعد امریکا میں داخل ہوئے تھے۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان واقعات نے شناخت کی تصدیق اور بین الاادارہ جانچ میں سنگین خامیاں بے نقاب کی ہیں۔

میمو صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر 14161 کا بھی حوالہ دیتا ہے، جو انہوں نے اپنے پہلے ہی دن جاری کیا تھا، جس میں ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کو امیگریشن نظام میں سیکیورٹی کمزوریوں کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

نئی پالیسی کے تحت، وہ افراد بھی جنہوں نے پہلے ہی پس منظر کی جانچ پاس کر لی تھی (جن میں کچھ گرین کارڈ یا پناہ حاصل کر چکے ہیں) اب اضافی انٹرویو اور اپڈیٹڈ اسکریننگ کے پابند ہوسکتے ہیں۔

ایجنسی تسلیم کرتی ہے کہ اس سے سنگین تاخیر ہوگی، مگر اس کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے تقاضے کارروائی کے اوقات سے زیادہ اہم ہیں، یو ایس سی آئی ایسنے اس بات کا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ پناہ گزین درخواستوں یا معطل شدہ فائدے کی اقسام کی بحالی کب ممکن ہوگی۔

ایک پہلے بیان میں، نوم نے لکھا تھا کہ اگر آپ قانونی پیشے سے وابستہ ہیں، تو ٹرمپ انتظامیہ آپ سے وزارت انصاف میں ڈپورٹیشن جج کے طور پر شامل ہونے اور قومی امیگریشن عدالت کے نظام میں دیانت اور وقار بحال کرنے کی اپیل کر رہی ہے۔

اس اپیل میں ایک لاکھ 59 ہزار 951 ڈالر سے 2 لاکھ 7 ہزار 500 ڈالر سالانہ تنخواہ کی پیشکش شامل تھی۔

امیگریشن کے حامیوں نے یہ کہتے ہوئے قانونی چیلنجوں کی پیشگوئی کی ہے کہ میمو عملاً ملک بھر میں پناہ گزین کارروائی کو معطل کرتا ہے اور برسوں سے مکمل کیسوں کو دوبارہ کھول دیتا ہے۔

انتظامیہ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات امریکی عوام کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں، کیوں کہ ان کے مطابق سیکیورٹی خلا اب بھی بہت وسیع ہیں۔

فی الحال، لاکھوں پناہ گزین اور محدود ممالک کے درخواست گزار غیر یقینی صورتحال میں ہیں، جبکہ انتظامیہ امیگریشن اسکریننگ کے نظام کا ’بالائی سے بنیاد تک‘ جائزہ لے رہی ہے۔

اورلینز میں آپریشن نیو شروع

ڈی ایچ ایس نے الگ سے نیو اورلینز، لوزیانا میں وفاقی قانون نافذ کرنے والا ایک آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کا ہدف اُن افراد کو بتایا گیا ہے جو ’جرائم میں ملوث غیرقانونی تارکینِ وطن ہیں‘ جو مقامی حکام کے آئی سی ای کی گرفتاری کی درخواستوں کو نظرانداز کرنے کے باعث آزاد گھوم رہے ہیں۔

اسسٹنٹ سیکریٹری ٹریشا میک لافلِن نے بیان میں کہا کہ سنکچری پالیسیاں امریکی کمیونٹیز کو خطرے میں ڈالتی ہیں، کیوں کہ یہ غیرقانونی مجرموں کو رہا کر دیتی ہیں اور ڈی ایچ ایس کے اہلکاروں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ان افراد کو سڑکوں سے ہٹائیں، جنہیں کبھی رہا نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے لکھا کہ یہ احمقانہ ہے کہ یہ ‘درندے’ دوبارہ نیو اورلینز کی سڑکوں پر چھوڑے گئے تاکہ مزید جرم کریں اور مزید متاثرین پیدا کریں، کیٹاہولا کرنچ کے اہداف میں وہ پرتشدد مجرم شامل ہیں جو گھروں میں گھسنے، مسلح ڈکیتی، گاڑیاں چوری کرنے اور ریپ جیسے جرائم میں گرفتاری کے بعد رہا کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اور سیکریٹری نوم کی قیادت میں ہم امریکی عوام کے لیے قانون اور امن بحال کر رہے ہیں۔

ہوم لینڈ سیکیورٹی نے اس نیو اورلینز کارروائی کو ’کیٹاہولا کرنچ‘ کا نام دیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق، ناقدین نے ان بظاہر مزاحیہ ناموں کو کارروائی کی سنگینی اور ادارے کے سخت طریقہ کار کے تناظر میں نا موزوں قرار دیا ہے۔

پریس ریلیز میں 10 افراد کی تفصیلات شامل تھیں، جنہیں حکام کے مطابق لوزیانا کی سڑکوں پر دوبارہ چھوڑ دیا گیا تھا، جن میں سے 5 کا تعلق ہونڈوراس سے، اور ایک ایک ویتنام، اردن، گوئٹے مالا، ایلسلواڈور اور میکسیکو سے۔

بیان میں کہا گیا کہ ان میں سے 2 افراد کو بعد ازاں ملک بدر کر دیا گیا تھا۔