نقطہ نظر

اداریہ: موجودہ صورت حال میں صفیں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے

غفار خان اور ولی خان سے لیکر بینظیر بھٹو اور نواز شریف تک، کئی سیاستدانوں کو بدعنوان یا ریاست مخالف قرار دیا گیا، عمران خان نے خود سخت زبانی کو فروغ دیا

سیاست میں معتدل زبان کی اہمیت، حتیٰ کہ تنقید کے دوران بھی کم نہیں لکھی جا سکتی، بدقسمتی سے ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے سیاستدان (اور اب سیکیورٹی حلقے بھی) اس کے بالکل برعکس رویہ اختیار کر رہے ہیں۔

اگرچہ آج کے دور میں، جلد غصے اور گہری تقسیم کے ماحول میں کوئی یہ توقع نہیں رکھتا کہ تنقید یا زبانی تبادلے مہذب ہوں، لیکن بدتمیزی کی حدیں سخت ترین توہین آمیز الفاظ تک بڑھانی نہیں چاہئیں۔

اس تناظر میں، جمعہ کے روز آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس مایوس کن تھی۔

آئی ایس پی آر کے سربراہ کے پی ٹی آئی اور اس کے بانی عمران خان کو (نام لیے بغیر) نشانہ بنانے والے سخت الفاظ سے ظاہر ہوا کہ فوج اور بڑی اپوزیشن جماعت کے درمیان گہرا عدم اعتماد موجود ہے، لیکن سابق وزیر اعظم کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ غیر معمولی حد تک سخت تھے۔

عمران خان کو ‘ذہنی طور پر بیمار’ اور ‘سیکیورٹی رسک’ قرار دیا گیا اور ان کی جماعت پر بھارت اور ٹی ٹی پی کے ساتھ ساز باز کا الزام لگایا گیا۔

سول حکمران بھی اس کے ساتھ نظر آئے، وزیر اطلاعات نے ہر لفظ کی توثیق کی، جبکہ وزیر دفاع نے بھی پریس کانفرنس کا دفاع کیا ہے۔

اپوزیشن کو نشانہ بنانا (فوجی مداخلت کے بغیر صرف سیاستدانوں کے درمیان ہونا چاہیے) ملک میں ایک طویل تاریخ رکھتا ہے، جیسا کہ دیگر ممالک میں بھی ہے۔

لیکن پاکستان میں، سیاسی حریفوں پر معمول کی تنقید کے علاوہ، سیاستدانوں، جیسے کہ ایوب خان کے دور میں فاطمہ جناح کے حب الوطنی کے معیار کو بھی مضبوط فوجی حضرات نے چیلنج کیا، اور بعد میں وہی سیاستدان (جنہیں انہوں نے اقتدار سے ہٹانے میں کردار ادا کیا تھا) سیاسی طور پر بحال بھی کیے گئے۔

سیاستدانوں نے بھی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔

غفار خان اور ولی خان سے لے کر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف تک، کئی سیاستدانوں کو بدعنوان یا ریاست مخالف قرار دیا گیا، جمعہ کی پریس کانفرنس کے ہدف، خود عمران خان نے مخالفین (فوج سمیت) کے خلاف زبانی سختی کو نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔

لیکن یہ زہریلا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

خاص طور پر وہ لوگ جو قومی اداروں کی نمائندگی کرتے ہیں اور عوامی عہدوں پر فائز ہیں، انہیں اپنے الفاظ میں محتاط رہنا چاہیے اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے ملک کو درپیش مختلف چیلنجز (دہشت گردی اور سرحدی کشیدگی) سے محفوظ رکھنا چاہیے۔

موجودہ صورتحال میں ضرورت ہے کہ صفیں مضبوط کی جائیں اور مخالفین کو ‘ریاست کے دشمن’ قرار دینا بند کیا جائے۔

تمام غلطیوں اور داخلی بحران کے باوجود، پی ٹی آئی اب بھی عوام میں قابلِ ذکر حمایت رکھتی ہے، اور اس پر تنقید اتنی زیادہ نہیں ہونی چاہیے کہ اسے ریاست مخالف رجحانات کے برابر سمجھا جائے۔

یہ اداریہ آج ڈان اخبار میں شائع ہوا ہے، انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔