نقطہ نظر

سیاسی کشمکش میں نئی شدت معاشی استحکام کے لیے نیا چیلنج

اگر کوئی بڑی بیرونی مالی مدد نہ ملی تو معاشی استحکام کے تیسرے سال پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی شدت بڑھتی جائے گی۔

پاکستان میں اس وقت ایک سیاسی جنگ جاری ہے جو متعدد محاذوں پر، مختلف حکمتِ عملیوں اور مختلف کھلاڑیوں کے ساتھ لڑی جا رہی ہے۔ داؤ پر اس ملک کی سیاست کا مستقبل لگا ہوا ہے۔ اور اس تمام صورتحال کے محرک وہ معیشت ہے جو طویل عرصے سے جمود کا شکار ہے۔

معیشت سے آغاز کریں اور پھر اُن اثرات کا جائزہ لیں جو سیاسی نظام میں پھیلتے ہیں۔ 2022 کی گرمیوں میں معیشت حد سے زیادہ گرم ہو چکی تھی، یہ عمل ایک سال قبل شروع ہوا تھا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اس وقت کے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے 2021 کے دوسرے نصف میں اس کا اعتراف بھی کیا تھا۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی اور جون 2022 تک زرمبادلہ ذخائر ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ فضا میں یہ خدشات گونج رہے تھے کہ کہیں پاکستان ’سری لنکا طرز‘ کے بحران میں نہ جا گرے۔ معیشت سے اٹھنے والی شدید بے چینی پورے معاشرے میں پھیل رہی تھی۔

اگست 2022 میں آخری لمحے میں آئی ایم ایف کے پروگرام نے پاکستان کو کھائی کے کنارے سے واپس کھینچا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ اسحٰق ڈار نے بطور وزیرِ خزانہ ذمہ داری سنبھالتے ہی پروگرام سے انحراف کیا جس کے بعد ملک ایک بار پھر ڈیفالٹ کے دہانے پر جا پہنچا، یہاں تک کہ جولائی 2023 میں ایک اور ہنگامی آئی ایم ایف پروگرام نے ایک مرتبہ پھر بچا لیا۔ ایک سال میں دو بار آخری لمحے میں بچاؤ شاید ایک ریکارڈ ہو۔

جولائی 2023 کے بعد سے معیشت مستحکم رہی، مہنگائی ختم ہو گئی، زرمبادلہ ذخائر بڑھے اور درآمدات کے لیے کور کم از کم ڈھائی ماہ تک پہنچ گیا۔ لیکن اچھی خبریں بس یہیں تک تھیں۔ 2024 اور 2025 کے دوران معیشت تو مستحکم رہی، اور بے چینی بھی آہستہ آہستہ کم ہوئی، مگر اس کا ایک بھاری خمیازہ سامنے آیا۔ روزگار کے مواقع رک گئے، ترقی رک گئی اور معیشت میں ایک نئی قسم کا دباؤ پیدا ہونا شروع ہو گیا۔

جمود معیشت کے کچھ حصوں کو جیسے قیمتوں اور درآمدی طلب کو تو مستحکم کر دیتا ہے مگر یہی جمود سرمایہ کاروں میں مایوسی بڑھا دیتا ہے، متوسط طبقہ اپنی قوتِ خرید کو تیزی سے کھوتا ہے اور محنت کش طبقے کیلئے زندگی ایک کٹھن جدوجہد بنتی جاتی ہےکیونکہ پاکستان میں اجرت ہمیشہ سب سے آخر میں بحال ہوتی ہیں۔

یہ مایوسی ریاست کی بڑھتی ہوئی وسائل کی طلب میں مزید اضافہ کرتی ہے، جو استحکام کے دور میں بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ ٹیکس بڑھتے ہیں، اخراجات کم ہوتے ہیں، اسٹیٹ بینک ہر دستیاب ڈالر کو ذخائر بڑھانے کے لیے سمیٹ لیتا ہے۔ ریاست کے مطالبات براہِ راست سرمایہ پر پڑتے ہیں، زیادہ ٹیکس، زیادہ شرحِ سود، اور ڈالر کی کمی پالیسیوں کو جکڑ لیتی ہے۔ ترقی کے وہ ادوار جو ایسے بحران سے پہلے آتے ہیں، سرمایہ داروں کو بہت زیادہ منافع دیتے ہیں۔ مگر جب باری بحران کی آتی ہے تو ریاست حساب لینے آتی ہے۔

سیاسی نظام میں ابھرنے والی ہلچل بھی انہی عوامل کی عکاس ہے۔ نظام کی پہلی دراڑ سول اور ملٹری اداروں کے درمیان پیدا ہوتی ہے۔ دونوں ہی استحکام کے دور میں وسائل کی کمی کا شدید دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمین مہنگائی کے باعث اپنی قوتِ خرید کھونے پر پریشان ہوتے ہیں اور ریاستی ڈھانچےانفرااسٹرکچر سے ہتھیاروں کی خریداری تک سرمایہ مانگتے ہیں۔ سول حکومتیں عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہیں، اس لیے وہ اپنے ووٹرز کو راضی کرنے کے لیے ریاستی وسائل اُن تک منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

کاروباری طبقہ اس بھاری بوجھ کو کم کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتا ہے۔ ٹیکس، شرح سود اور مراعات کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور اکثر وہ اپنے مفاد کیلئے ریاست کے مختلف اداروں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

یوں نچلی سطح کی مایوسی اوپر کی کشمکش کو بھڑکاتی ہے۔ حکمران طبقے میں بے اعتمادی، شک اور مایوسی بڑھتی ہے۔ یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ حکومت ناکام ہے، نااہل ہے، خود غرض ہے۔ یہ سب کچھ حکومت کی توجہ معیشت کے استحکام سے ہٹا دیتا ہے اور ترقی کی بے قراری دوبارہ سر اٹھاتی ہے۔

پاکستان اس چکر سے ایک بار پھر گزر رہا ہے، مگر اس بار کچھ فرق کے ساتھ۔ مرکز اب غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے، 2018 میں شروع ہونے والا ہائبرڈ تجربہ 2024 کے بعد مزید مضبوط ہوا اور ایگزیکٹو فیصلوں میں سول اداروں کی جگہ لیتا گیا۔ جمہوری قوتیں اب صوبوں میں اپنے اپنے مضبوط قلعوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہر بڑی سیاسی جماعت ایک صوبے پر قابض ہے، جس کی آمدن اُنہیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ہر جماعت نے اپنے صوبے کو بنیاد بنا کر پہلے نظام میں اپنی جگہ بنائی ہے اور پھر مرکز میں اپنی ’حق دار‘ جگہ دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے، میں اسے ’عظیم پسپائی‘ کہتا ہوں۔

اسی دوران استحکام کا تیسرا سال شروع ہوتے ہی مرکز کی وسائل کی طلب بے انتہا بڑھ گئی ہے اور غیر جمہوری قوتیں اس کے پیچھے ہیں۔ وہ عناصر جو جمہوری قوتوں کو مکمل طور پر مٹائے بغیر اپنے سیاسی مستقبل کا تصور نہیں کر سکتے، اس کوشش کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کو واپس لینے اور صوبوں کو توڑنے کی باتیں اسی سول-ملٹری کشمکش سے جنم لیتی ہیں، جب معاشی استحکام عوام کو کاٹنے لگتا ہے۔

جب تک استحکام سے نکلنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں آتا، نظام مزید اندرونی کشمکش کا شکار ہوگا اور کسی نہ کسی بڑے تصادم یا حساب کتاب کے بغیر یہ دباؤ نہیں ٹلے گا۔ کھلاڑی بہت زیادہ ہیں اور کھیل میں جگہ بہت کم۔

اگر کوئی بڑی بیرونی مالی مدد نہ ملی تو معاشی استحکام کے تیسرے سال پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی شدت بڑھتی جائے گی۔


اس کالم کو انگریزی میں پڑھیں۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔