نقطہ نظر

سیاسی عدم استحکام کے محرک: فیض حمید کی اگلی منزل کیا ہوگی؟

اگرچہ آئی ایس پی آر نے کسی سیاسی جماعت یا رہنما کا نام نہیں لیا، مگر ’سیاسی عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ‘ جیسے بار بار استعمال ہونے والے جملے کو عام طور پر سابق وزیرِاعظم عمران خان کی طرف اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔

سابق آئی ایس آئی سربراہ فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائے جانے کے اعلان نے ایک بار پھر ان کے مبینہ کردار کے بارے میں قیاس آرائیوں کو ہوا دے دی ہے، خصوصاً اس کے بعد جب انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے اشارہ دیا کہ معاملہ بہت زیادہ وسیع اور سنگین نوعیت کا ہے، جس میں بعض نامعلوم سیاسی کردار بھی شامل ہیں۔

اگرچہ آئی ایس پی آر کے بیان میں فیض حمید کی سزا پر توجہ مرکوز رہی، لیکن آخری پیراگراف وہ تھا جس نے سب سے زیادہ توجہ حاصل کی۔

بیان میں کہا گیا:

’سیاسی عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ میں، اپنے مفادات کیلئے سیاسی بے چینی اور عدم استحکام پیدا کرنے میں سزا یافتہ فرد کی مداخلت اور بعض دیگر معاملات کو الگ سے دیکھا جارہا ہے‘۔ لیکن اس بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔

اس زبان سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ فیض حمید اور بعض نامعلوم سیاست دانوں کو ملک میں بے امنی پیدا کرنے کی ایک وسیع کوشش سے جوڑا جا رہا ہے۔

یہ حوالہ فوج کی جانب سے گزشتہ سال سے جاری ایسے بیانات کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے، جن میں شکوک کا اظہار اور ان کے سیاسی عناصر کے ساتھ مبینہ رابطوں کی طرف اشارے موجود تھے۔

15 اگست 2024 کو جاری کردہ ایک بیان میں آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ ’بعض ریٹائرڈ افسران اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے سیاسی مفادات کے لیے عدم استحکام پیدا کرنے کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔‘

اسی دوران ان کی گرفتاری کے وقت جاری ایک اور بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘ریٹائرمنٹ کے بعد پاک فوج کے ایکٹ کی متعدد خلاف ورزیاں ثابت ہوئی ہیں‘، تاہم تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

چند روز بعد آئی ایس پی آر نے انکشاف کیا تھا کہ فیض حمید سے 9 مئی 2023 کے واقعات میں مبینہ کردار کے حوالے سے بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں ، ایسے واقعات جن میں فوجی تنصیبات اور یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔

اس موقع پر جاری بیان میں کہا گیا تھا:

’تحقیقات کے دوران لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا ایسے اقدامات میں تعلق سامنے آیا ہے جن کا مقصد سیاسی بے چینی اور بدامنی پیدا کرنا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد واقعات ہوئے، جن میں 9 مئی 2023 کے واقعات بھی شامل ہیں۔ یہ سب سیاسی مفادات کے لیے اور سیاسی عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ میں کیا گیا، جس کی الگ سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘


الزامات اور شکوک

یہ پہلا موقع نہیں کہ فیض حمید پر سیاسی کردار ادا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو، وہ بھی سروس کے دوران اور بعد از ریٹائرمنٹ دونوں صورتوں میں۔

وہ پہلی بار اُس وقت نمایاں ہوئے جب انہوں نے 2017 میں حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ہونے والے متنازع فیض آباد معاہدے میں ضامن کا کردار ادا کیا، جس سے کئی ہفتوں طویل دھرنا ختم ہوا۔

پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں انہوں نے اس وقت کے وزیرِاعظم کے ’کچن کیبنٹ‘ میں بھی جگہ بنا لی تھی۔ بعض اطلاعات کے مطابق وہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی دونوں کے کافی قریب ہو گئے تھے۔

2020 میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی گوجرانوالہ کے جلسے میں براہِ راست الزام لگایا تھا کہ ان کی حکومت کی برطرفی کے پسِ پردہ جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید تھے۔

نواز شریف نے جلسے میں کہا تھا:

’جنرل فیض! یہ سب آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، اس کا جواب دینا ہوگا۔‘

اگرچہ ان کے پی ٹی آئی کی سیاست پر اثرانداز ہونے کے بارے میں قیاس آرائیاں عام تھیں، مگر کوئی براہِ راست ثبوت موجود نہیں تھا۔

2022 میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں ایک پی ٹی آئی رہنما انہیں سیاست میں آنے کی دعوت دیتے نظر آئے۔ تاہم سابق جنرل نے ٹی وی پر آکر واضح کیا کہ وہ دو سالہ پابندی کے بعد بھی سیاست میں نہیں آئیں گے۔

پھر ان کے بھائی نجف حمید کا معاملہ سامنے آیا، جنہیں مارچ 2024 میں کرپشن اور رشوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا، جب ایک عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزامات تھے۔

بہت سوں کا خیال تھا کہ وہ اپنے بھائی کے آئی ایس آئی چیف ہونے کے دور میں علاقے میں اثر و رسوخ رکھتے تھے۔


کیا 9 مئی میں کردار تھا؟

گزشتہ سال گرفتاری کے فوراً بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فیض حمید سیاسی سرگرمیوں میں “گہرے طور پر ملوث” رہے۔

انہوں نے کہا تھا ’ریٹائرمنٹ کے بعد جو سیاسی واقعات ہوئے، ان میں فیض کا کردار تھا، وہ ایسے شخص ہیں جو طاقت رکھتے رہے ہوں اور پھر پیچھے ہٹنا پڑے تو وہ معاملات میں مداخلت کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔‘

9 مئی کے حوالے سے خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ’قرائن اور شواہد‘ ان کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ ممکنہ طور پر ’اسٹریٹجک ایڈوائزر‘ کا کردار ادا کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا تھا ’وہ لاجسٹکس فراہم کر سکتے تھے اور زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے رہنمائی دے سکتے تھے، اگرچہ میں سو فیصد دعویٰ نہیں کر سکتا، مگر شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔‘

اگرچہ آئی ایس پی آر نے کسی سیاسی جماعت یا رہنما کا نام نہیں لیا، مگر ’سیاسی عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ‘ جیسے بار بار استعمال ہونے والے جملے کو عام طور پر سابق وزیرِاعظم عمران خان کی طرف اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔

فوج نے یہ نہیں بتایا کہ الگ سے جاری تحقیقات کب مکمل ہوں گی یا سابق خفیہ سربراہ کے خلاف مزید الزامات عائد کیے جائیں گے یا نہیں۔


اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیں۔

باقر سجاد سید
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔