سڈنی حملے میں باپ بیٹا ملوث نکلے، پولیس کا مزید ملزمان کی تلاش ختم کرنےکا اعلان
آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے بونڈی ساحل پر فائرنگ کرکے 15 افراد کو ہلاک کرنے والے مبینہ حملہ آور باپ بیٹا نکلے جن کی تفصیلات پولیس نے بھی جاری کر دی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے پیر کی صبح پریس کانفرنس میں بتایا کہ 50 سالہ باپ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا، جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 16 ہو گئی جبکہ اس کا 24 سالہ بیٹا شدید زخمی حالت میں اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔
ریاستی نشریاتی ادارے اے بی سی اور دیگر مقامی میڈیا کے مطابق باپ اور بیٹے کی شناخت بالترتیب ساجد اکرم اور نوید اکرم کے طور پر کی گئی ہے۔
حکام نے اتوار کو ہونے والی فائرنگ کو ایک منصوبہ بند یہود مخالف (اینٹی سیمیٹک) حملہ قرار دیا ہے۔
پولیس کے مطابق حملے کے بعد 40 افراد اب بھی اسپتال میں ہیں، جن میں دو پولیس افسران بھی شامل ہیں جن کی حالت تشویش ناک ہے۔ متاثرین کی عمریں 10 سے 87 برس کے درمیان ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق شدید گرمی کے باعث ساحل پر بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے اور حملہ تقریباً 10 منٹ تک جاری رہا، جس کے بعد سینکڑوں افراد ریتیلے ساحل اور قریبی گلیوں میں جان بچانے کے لیے بھاگ نکلے۔
پولیس نے بتایا کہ تقریباً ایک ہزار افراد اس ہدف بنائی گئی تقریب میں شریک تھے، جو ساحل کے قریب ایک چھوٹے سے پارک میں منعقد کی گئی تھی۔
حملے کے دوران ایک مسلح شخص کو قابو میں کر کے اسلحہ چھیننے والے ایک راہ گیر کی ویڈیو منظرِ عام پر آئی ہے، جسے ہیرو قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے اقدام سے کئی جانیں بچ گئیں۔
سیون نیوز آسٹریلیا کے مطابق اس شخص کا نام احمد ال احمد ہے۔ ان کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ 43 سالہ فروٹ شاپ کے مالک احمد ال احمد کو دو گولیاں لگی تھیں اور ان کی سرجری کی گئی ہے۔
اس شخص کے لیے بنائے گئے فنڈ ریزنگ پیج پر پیر کی دوپہر تک 3 لاکھ 50 ہزار آسٹریلوی ڈالر (تقریباً 2 لاکھ 33 ہزار برطانوی پاؤنڈ) جمع ہو چکے تھے۔
پولیس نے حملہ آوروں کے نام جاری نہیں کیے، تاہم بتایا کہ حملہ آور باپ کے پاس 2015 سے اسلحہ رکھنے کا لائسنس تھا اور اس کے پاس چھ لائسنس یافتہ ہتھیار موجود تھے۔
وزیر داخلہ ٹونی برک نے بتایا کہ حملہ آور باپ 1998 میں طالب علم ویزا پر آسٹریلیا آیا تھا جبکہ بیٹا آسٹریلیا میں پیدا ہوا اور وہ آسٹریلوی شہری ہے۔
پولیس نے اسلحے کی تفصیلات فراہم نہیں کیں، تاہم جائے وقوع سے سامنے آنے والی ویڈیوز میں حملہ آوروں کو بولٹ ایکشن رائفل اور شاٹ گن سے فائرنگ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
نیو ساؤتھ ویلز کے پولیس کمشنر مال لینن نے صحافیوں کو بتایا کہ “ہم دونوں افراد کے پس منظر کی مکمل چھان بین کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں ان کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔”
بونڈی کی رہائشی 27 سالہ مورگن گیبریل نے بتایا کہ وہ قریبی سنیما جا رہی تھیں جب انہوں نے پہلے آتش بازی جیسی آوازیں سنیں، پھر لوگ ان کی گلی میں دوڑتے ہوئے آئے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے چھ یا سات لوگوں کو پناہ دی۔ ان میں سے دو میرے قریبی دوست تھے اور باقی سڑک پر موجود لوگ تھے۔ لوگوں کے فون ساحل پر رہ گئے تھے اور سب بس جان بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ’ آج صبح بہت افسردہ ماحول ہے۔ عام طور پر پیر کے دن یہاں مجمع ہوتا ہے، لوگ تیراکی، سرفنگ اور دوڑ لگا رہے ہوتے ہیں، مگر آج سب کچھ بہت خاموش ہے اور فضا میں سوگ کی کیفیت ہے۔‘
بونڈی پویلین کے قریب پھولوں اور اسرائیلی و آسٹریلوی جھنڈوں کے ساتھ ایک عارضی یادگاری مقام قائم کیا گیا جبکہ آن لائن تعزیتی کتاب بھی بنائی گئی ہے۔
عالمی رہنماؤں کا اظہار مذمت
حکام نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ حملے میں صرف دو ہی افراد ملوث تھے، اس سے قبل ایک تیسرے حملہ آور کے امکان کی بھی جانچ کی جا رہی تھی۔
ملزمان کے گھر جو سڈنی کے مغرب میں تقریباً 36 کلومیٹر دور بونیرگ کے علاقے میں واقع ہے، پیر کو سخت سیکیورٹی میں تھا اور کئی پڑوسی گھروں کو گھیرے میں لے لیا گیا تھا۔
آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیز نے پیر کی صبح بونڈی ساحل کا دورہ کیا اور جائے وقوع پر پھول رکھے۔
انہوں نے کہا کہ’جو کچھ ہم نے کل دیکھا وہ خالص شرارت، یہود مخالف نفرت اور ہمارے ملک میں دہشت گردی کا ایک واقعہ تھا، وہ بھی ایک علامتی آسٹریلوی مقام پر۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ’ آج یہودی برادری دکھ میں ہے۔ آج تمام آسٹریلوی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم یہود مخالف نفرت کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔ یہ ایک ناسور ہے اور ہم اسے مل کر ختم کریں گے۔‘
بعد ازاں البانیز نے آسٹریلوی عوام سے اپیل کی کہ وہ یہودی برادری سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک موم بتی روشن کریں۔ ’تاکہ یہ پیغام دیا جا سکے کہ روشنی اندھیرے کو شکست دے گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون سمیت کئی عالمی رہنماؤں نے تعزیت اور حمایت کا اظہار کیا ہے۔
اتوار کی فائرنگ اکتوبر 2023 میں غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد آسٹریلیا میں یہودی عبادت گاہوں، عمارتوں اور گاڑیوں پر ہونے والے متعدد یہود مخالف حملوں میں سب سے سنگین واقعہ تھا۔
’لاشیں زمین پر پڑی تھیں‘
آسٹریلیا دنیا کے محفوظ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے اور یہاں اجتماعی فائرنگ کے واقعات نہایت کم ہیں۔ یہ حملہ 1996 کے بعد بدترین تھا، جب تسمانیہ کے سیاحتی مقام پورٹ آرتھر میں ایک حملہ آور نے 35 افراد کو قتل کیا تھا۔
ربی مینڈل کاسٹل، جن کے بہنوئی ایلی شلانگر اتوار کے حملے میں مارے گئے، نے اسے ایک ہولناک رات قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسے موقع پر غصے میں آ جانا اور الزام تراشی آسان ہوتی ہے، مگر یہ اس بارے میں نہیں ہے۔ یہ ایک برادری کے بارے میں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں ایسے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے، متحد ہونا ہے، اور ہم ایسا کریں گے۔ ہم اس مرحلے سے نکل آئیں گے اور آسٹریلوی معاشرہ ہماری مدد کرے گا۔‘
مقامی خاتون ڈینیئل، جنہوں نے اپنا پورا نام بتانے سے انکار کیا، حملے کے وقت ساحل پر موجود تھیں اور اپنی بیٹی کو لینے دوڑیں، جو حملہ آوروں کے قریب ایک فنکشن سینٹر میں بار مٹزوا کی تقریب میں شریک تھی۔
انہوں نے کہا کہ’میں نے فائرنگ کی خبر سنی تو فوراً اپنی بیٹی کو لینے بھاگی۔ میں نے گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں، زمین پر لاشیں دیکھیں۔ ہم خوف کے عادی ہو چکے ہیں، ہم سات اکتوبر کے بعد سے خود کو ایسے ہی محسوس کر رہے ہیں۔‘
آسٹریلیا میں یہودی آبادی نسبتاً کم ہے، 27 ملین آبادی والے ملک میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد خود کو یہودی قرار دیتے ہیں۔
ان میں سے تقریباً ایک تہائی سڈنی کے مشرقی علاقوں، بشمول بونڈی، میں مقیم ہیں۔ بونڈی حملے کے بعد برلن، لندن اور نیویارک سمیت بڑے شہروں میں یہودی مذہبی تقریبات کے لیے سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔