دنیا

بھارت اور امریکا کا 60 سالہ پرانا خفیہ مشن، جوہری آلے کی گمشدگی پر کیسے ختم ہوا؟

اس خفیہ کارروائی میں امریکی اور بھارتی کوہ پیماؤں نے نندا دیوی، بھارت کے دوسرے بلند ترین پہاڑ پر چڑھ کر ایک جوہری توانائی سے چلنے والے نگرانی اسٹیشن کو نصب کرنا تھا تاکہ چین کے میزائل پروگرام کی نگرانی کی جا سکے۔

سرد جنگ کے عروج پر بھارتی ہمالیہ میں ایک خفیہ سی آئی اے مشن حیران کن ناکامی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، جہاں دنیا کے بلند ترین پہاڑوں میں سے ایک پر پلوٹونیم سے چلنے والا جوہری آلہ غائب ہوگیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق تقریباً 60 سال بعد بھی امریکی حکومت اس واقعے کو عوامی طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے جبکہ خدشات موجود ہیں کہ یہ آلہ گنگا ندی پر انحصار کرنے والے لاکھوں افراد کے لیے ماحولیاتی اور سلامتی کے خطرات پیدا کر سکتا ہے، جیسا کہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔

اس خفیہ مشن میں امریکی اور بھارتی کوہ پیماؤں نے نندا دیوی، بھارت کے دوسرے بلند ترین پہاڑ پر چڑھ کر ایک جوہری توانائی سے چلنے والے نگرانی اسٹیشن کو نصب کرنا تھا تاکہ چین کے میزائل پروگرام کی نگرانی کی جا سکے۔

یہ جنریٹر جسے SNAP-19C کہا جاتا ہے، انتہائی تابکار پلوٹونیم سے چلتا تھا اور ایک انٹینا کو توانائی فراہم کرتا تھا جو چینی جوہری تجربات کی ٹیلی میٹری حاصل کر سکتا تھا۔ اس میں شامل Pu-239 وہی آئسوٹوپ ہے جو ناگاساکی پر گرائے گئے ایٹمی بم میں استعمال ہوا تھا۔

یہ جنریٹر چینی جوہری تجربات کی نگرانی کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا لیکن ایک برفانی طوفان کے دوران نندا دیوی کے اوپر چھوڑ دیا گیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اسے آج تک بازیاب نہیں کیا جا سکا۔

1965 میں جب کوہ پیما چوٹی کے قریب پہنچے تو ایک شدید طوفان کی وجہ سے انہیں فوری واپس جانا پڑا، زندگیاں بچانے کے لیے مشن کے قائد نے ٹیم کو ہدایت دی کہ آلات کو چوٹی کے قریب محفوظ کر کے فوری طور پر نیچے اتر جائیں۔

تقریباً 50 پاؤنڈ وزنی یہ جنریٹر وہیں چھوڑ دیا گیا اور اگلے سال جب کوہ پیما واپس آئے تو یہ حیران کن طور پر غائب تھا۔

ایک ہمالیائی برفانی تودہ (Avalanche) نے جنریٹر کے محفوظ مقام کو اڑا دیا تھا، متعدد تلاش مہمات، تابکاری ڈیٹیکٹر اور دھات کے سینسر استعمال کرنے کے باوجود یہ جنریٹر کبھی نہیں ملا۔

اِس نقصان نے سی آئی اے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی اور واشنگٹن اور نئی دہلی دونوں میں تشویش پیدا کر دی، جس سے کئی دہائیوں پر محیط ایک پردہ پوشی (Cover-up) شروع ہو گئی جسے صدر جمی کارٹر جیسے لوگوں نے جاری رکھا۔

یہ پلوٹونیم سے چلنے والا آلہ اب بھی غالباً نندا دیوی کے برفانی گلیشیئرز کے نیچے دفن ہے، جہاں سے گنگا ندی کو پانی مہیا ہوتا ہے، اگرچہ 1970 کی دہائی میں کیے گئے سائنسی مطالعے میں پانی میں کوئی آلودگی نہیں پائی گئی اور خطرے کو کم قرار دیا گیا مگر خدشات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے، خاص طور پر ہمالیہ کے گلیشیئرز کے تیز رفتاری سے پگھلنے کے پیش نظر یہ خطرات برقرار ہیں۔

یہ واقعہ 1978 میں منظر عام پر آیا جب ایک تحقیقی رپورٹر نے مشن کی پتا لگایا، جس سے بھارت میں غم و غصہ پھیل گیا۔ ارکان پارلیمان نے حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے سی آئی اے کو بھارتی زمین پر خفیہ کارروائی کی اجازت دی جبکہ اس واقعے پر احتجاج کرنے والے مظاہرین نے کہا کہ ایجنسی نے بھارت کی مقدس ندی کے ماخذ کو خطرے میں ڈال دیا۔

ڈی کلاسفائیڈ سفارتی خطوط سے پتا چلتا ہے کہ امریکی صدر جمی کارٹر اور اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم مورارجی دیسائی نے خاموشی سے اس واقعے کے اثرات کو محدود کرنے کی کوشش کی۔

آج بھی یہ معما برقرار ہے، بھارتی سیاستدان، ماحولیاتی کارکن اور نندا دیوی کے قریب رہنے والے گاؤں والے دوبارہ اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنریٹر کو ڈھونڈا اور ہٹایا جائے۔

کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ موسمی تغیرات کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلنے پر یہ جنریٹر ظاہر ہو سکتا ہے، یا اس کا تابکار مواد غلط استعمال کے لیے دستیاب ہو سکتا ہے۔