اداریہ: ریاستی جبر اور بڑھتا ہوا سیاسی بحران
رواں ہفتے اڈیالہ جیل جہاں سابق وزیراعظم عمران خان قید ہیں، کے باہر مظاہرین کے خلاف کیا گیا طاقت کا استعمال ایک مانوس طرزِ عمل کا حصہ ہے، ریاستی حکام نے عدالتی احکامات اور شہری حقوق کو نظر انداز کیا اور ایک پُرامن احتجاج کو منتشر کر دیا حالانکہ وہ باآسانی مظاہرین سے یا کم از کم عمران خان کے اہلِ خانہ سے بات چیت کر سکتے تھے۔
انصاف کی امیدیں بتدریج کم ہوتی جا رہی ہیں، بالخصوص ایسے وقت میں جب نظامِ انصاف خود شدید دباؤ کا شکار ہے۔ دوسری جانب سیاسی قوتیں کشیدگی کم کرنے کے بجائے مزید محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہی ہیں، جس کے باعث ملک پر چھایا مستقل بحران اور گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
افسوسناک طور پر سماجی معاہدے میں متعدد ترامیم کے باوجود صورتحال بہتر نہیں ہو سکی اور پاکستان ایک گہرے سماجی و سیاسی بحران کی گرفت میں پھنسا ہوا ہے۔ جیسے جیسے جائز اختلافِ رائے کے راستے محدود ہوتے جا رہے ہیں، حکومت عوامی بے چینی کی وجوہات دور کرنے کے بجائے اپنی گرفت مضبوط رکھنے میں زیادہ دلچسپی لیتی دکھائی دیتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا دفتر نے بدھ کو اڈیالہ جیل کے باہر مظاہرین پر گزشتہ شب ہائی پریشر واٹر کینن کے استعمال کو ’پُرامن اجتماع کے حق کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔ ادارے نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ پانی میں کیمیائی محرکات شامل کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔
حکام سے مطالبہ کیاگیا کہ ‘لوگوں کے پُرامن احتجاج کے حق کا احترام اور طاقت کے غیر متناسب اور سزا دینے والے استعمال کو ختم کریں‘، ایمنسٹی نے یاد دلایا کہ ’بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے تحت واٹر کینن کا استعمال صرف شدید عوامی بے امنی اور وسیع پیمانے پر تشدد کی صورت میں ہی جائز ہے‘۔
حقیقت یہ ہے کہ ریاست کے لیے سخت گیر ہتھکنڈوں پر اصرار کی کوئی منطقی ضرورت نہیں، خصوصاً اس کے بعد کہ وہ ملک کے بیشتر انتظامی اور حکومتی شعبوں میں غیر معمولی طاقت حاصل کر چکی ہے۔ اس کے باوجود، ناقابلِ فہم طور پر حکومت یوں برتاؤ کر رہی ہے جیسے سابق وزیرِ اعظم اور ان کی جماعت سے اسے مسلسل وجودی خطرہ لاحق ہو، اور انہیں قابو میں رکھنے کے لیے طاقت کا سہارا ناگزیر ہو۔
حکومت اپنے لیے نئے مسائل ہی پیدا کر رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے تشدد نے حال ہی میں خبردار کیا کہ عمران خان کی طویل تنہائی میں قید کو ’تشدد یا دیگر غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک‘ کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس معاملے پر اپنے بیان میں خبردار کیا کہ’اہلِ خانہ اور وکلا سے ملاقات کی اجازت نہ دینا، پاکستان کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدات، جیسے آئی سی سی پی آر اور منصفانہ عدالتی عمل کے تقاضوں کی خلاف ورزی ہے‘ اور مزید کہا کہ ’منڈیلا رولز کے مطابق اہلِ خانہ سے رابطے پر پابندی کو تادیبی یا سزا کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا‘۔
عمران خان پہلے ہی جیل میں ہیں اور متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف قانونی کارروائی جاری رہ سکتی ہے، مگر ان کے بنیادی حقوق سلب نہیں کیے جانے چاہئیں۔ اہلِ خانہ اور وکلا سے ملاقات کی اجازت دینے سے عمران خان کی قانونی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، اس لیے انہیں تنہائی میں رکھنے پر اصرار بے معنی ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ قیدیوں کے حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری کرے اور مزید عالمی تنقید سے بچنے کے لیے بروقت اقدام کرے۔
اداریہ انگریزی میں پڑھیں۔