دنیا

امریکا نے پاکستان کے ایف 16 طیاروں کے لیے 68 کروڑ ڈالر کے اپ گریڈ پیکج کی منظوری دے دی

ڈیفینس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی نے پاکستان کی جانب سے 68.6 کروڑ ڈالر کی فارن ملٹری سیل کی درخواست کی منظوری دی، جس میں ایف 16 ہارڈویئر، سافٹ ویئر اپ گریڈز اور دیکھ بھال کی معاونت شامل ہے، فیصلے سے امریکی کانگریس کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا گیا۔

واشنگٹن: پاکستان کے ایف 16 لڑاکا طیاروں کے بیڑے کے لیے 68 کروڑ 60 لاکھ ڈالر مالیت کے امریکی فوجی اپ گریڈ پیکج کو امریکی کانگریس کے قانونی نوٹیفکیشن کے تحت کلیئر کردیا گیا ہے۔

ایف 16 لڑاکا طیارے بنانے والی امریکی ایئرواسپیس اور دفاعی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کو مجوزہ فروخت کے لیے مرکزی کنٹریکٹر نامزد کیا گیا ہے جو طویل عرصے سے بین الاقوامی صارفین کے لیے ان طیاروں کے ڈیزائن، اپ گریڈ اور دیکھ بھال کے پروگرامز کی ذمہ دار رہی ہے۔

یہ فروخت آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ اور سالانہ مالی قوانین کے تحت فراہم کردہ موجودہ اختیارات کے تحت عمل میں لائی گئی۔

ان قوانین کے مطابق جب کانگریس کو باضابطہ طور پر مطلع کر دیا جائے اور مقررہ مدت میں کوئی اعتراض نہ ہو تو انتظامیہ فنڈز جاری اور خرچ کر سکتی ہے۔

ڈیفینس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی نے پاکستان کی جانب سے 68.6 کروڑ ڈالر کی فارن ملٹری سیل کی درخواست کی منظوری دی، جس میں ایف 16 ہارڈویئر، سافٹ ویئر اپ گریڈز اور دیکھ بھال کی معاونت شامل ہے اور اس فیصلے سے امریکی کانگریس کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا گیا۔

امریکی قانون کے تحت اس منظوری کا مطلب یہ نہیں کہ کانگریس کی نگرانی کو نظرانداز کیا گیا۔ ڈی ایس سی اے کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد کانگریس کو لازمی 30 روزہ جائزہ مدت دی جاتی ہے، جس دوران اراکین اعتراض اٹھا سکتے ہیں یا لین دین روکنے کے لیے قرارداد پیش کر سکتے ہیں۔

اگر اس مدت میں کوئی اعتراض نہ ہو، جو عموماً معمول کی بات ہے، تو فروخت کو کانگریس کی منظوری حاصل تصور کیا جاتا ہے۔ علیحدہ ووٹنگ صرف اسی صورت میں ہوتی ہے جب کانگریس مداخلت کا فیصلہ کرے۔

یہ طریقہ کار امریکی اسلحہ منتقلی کے قانونی فریم ورک کا حصہ ہے۔ ڈی ایس سی اے کو فارن ملٹری سیلز اور فارن ملٹری فنانسنگ جیسے طریقہ کار کے ذریعے اس نوعیت کے لین دین کا اختیار حاصل ہے۔

یہ پروگرام عموماً خریدار ملک کے اپنے فنڈز یا ایسے امریکی قرضوں یا گرانٹس پر انحصار کرتے ہیں جن کی پہلے ہی صدر اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سطح پر منظوری دی جا چکی ہو، جیسا کہ پاکستان کے ایف 16 پیکج کے معاملے میں ہے۔

اپ گریڈ پیکج

گزشتہ ہفتے کانگریس کی ویب سائٹ پر شائع نوٹیفکیشن کے مطابق مجوزہ فروخت کا مقصد پاکستان کے بلاک 52 اور مڈ لائف اپ گریڈ ایف 16 طیاروں کی سروس لائف 2040 تک بڑھانا ہے جبکہ امریکا اور شراکت دار افواج کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھی جائے گی۔

اہم دفاعی آلات کی مالیت 3.7 کروڑ ڈالر ہے جبکہ باقی 64.9 کروڑ ڈالر دیکھ بھال، مرمت اور اپ گریڈیشن پر مشتمل ہیں۔

پیکج میں 92 لنک 16 ٹیکٹیکل ڈیٹا لنک سسٹمز اور انضمام و جانچ کے لیے چھ غیر فعال ایم کے 82 پانچ سو پاؤنڈ بم باڈیز شامل ہیں۔

دیگر حصوں میں ایویونکس اپ گریڈز، محفوظ مواصلاتی اور نیویگیشن آلات، کرپٹوگرافک ڈیوائسز، مشن پلاننگ ٹولز، نیز سافٹ ویئر اور ہارڈویئر میں تبدیلیاں شامل ہیں۔

تربیتی نظام، اسلحہ کی جانچ اور ری پروگرامنگ کا سامان اور متعلقہ اسپیئر پارٹس بھی پیکج کا حصہ ہیں۔

حساس اجزا میں موڈ 5 شناختی نظام، ہینڈ ہیلڈ کی لوڈرز، اور اسلحہ کے بلٹ ان ٹیسٹ فنکشنز کے لیے ری پروگرامنگ آلات شامل ہیں، جن میں سے بعض کو خفیہ درجہ دیا گیا ہے۔

پاکستان نے پہلی بار 22-2021 میں ایف 16 اپ گریڈز کی درخواست دی تھی۔ اگرچہ ڈی ایس سی اے نے مستقل طور پر اس تجویز کی حمایت کی، تاہم بائیڈن انتظامیہ نے اس وقت دستیاب نوٹیفکیشن طریقہ کار کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا۔ دسمبر 2024 میں ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا مگر مزید پیش رفت نہ ہو سکی۔

ٹرمپ انتظامیہ کے تحت دسمبر 2025 میں کانگریس کو ایک نیا نوٹیفکیشن بھیجا گیا۔ جب قانونی نوٹیفکیشن کی مدت بغیر کسی اعتراض کے مکمل ہو گئی تو امریکی قانون کے مطابق مجوزہ فروخت کی منظوری دے دی گئی۔

امریکی مؤقف

ڈی ایس سی اے نے اپنے سرکاری بیان میں کہا کہ یہ فروخت امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے مقاصد کی حمایت کرے گی کیونکہ اس سے پاکستان کو امریکا اور شراکت دار افواج کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔

ایجنسی کے مطابق اس سے انسداد دہشت گردی کی جاری کوششوں میں تعاون مضبوط ہوگا اور مستقبل کی ممکنہ کارروائیوں کے لیے تیاری بہتر ہو گی۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کے ایف 16 بیڑے کی مرمت اور اپ گریڈ سے پرواز کے تحفظ سے متعلق اہم خدشات دور ہوں گے اور جنگی کارروائیوں، مشقوں اور تربیت کے دوران پاک فضائیہ اور امریکی فضائیہ کے درمیان انضمام اور ہم آہنگی میں بہتری آئے گی۔

ڈی ایس سی اے کے مطابق مجوزہ فروخت سے خطے میں فوجی توازن متاثر نہیں ہوگا۔

اس فروخت پر عمل درآمد کے لیے پاکستان میں اضافی امریکی سرکاری یا کنٹریکٹر عملے کی ضرورت نہیں ہوگی اور اس سے امریکی دفاعی تیاری پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔

امریکی حکومت نے کہا کہ اسے مجوزہ فروخت سے منسلک کسی آف سیٹ معاہدے کا علم نہیں، اور اگر ایسا کوئی انتظام ہوا تو اس کا تعین پاکستان اور کنٹریکٹر کے درمیان مذاکرات کے ذریعے کیا جائے گا۔


خبر کو انگریزی میں پڑھیں۔