انہونی کو ہونی کر دے
پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر یہ ہارنے پر آئے تو بنگلہ دیش اور زمبابوے جیسی ٹیموں سے بھی ہار جاتی ہے لیکن جس دن گرین شرٹس موڈ میں ہوں تو یہ دنیا کی بڑی سے بڑی ٹیم اور اسٹارز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے چاروں شانے چت کر دیتے ہیں۔
اور قومی کرکٹ ٹیم نے صرف ایک ماہ کے اندر ہی دونوں باتیں درست ثابت کرتے ہوئے پہلے زمبابوے سے شکست کھائی اور پھر گزشتہ روز عالمی نمبر ایک جنوبی افریقہ کو پچھاڑتے ہوئے فتح کا تاج سر پر سجایا۔
گرین شرٹس نے ابوظہبی میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں جنوبی افریقہ کی ٹیم کو 7 وکٹ سے اپ سیٹ شکست دے کر سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی ہے۔
مجموعی طور پر ٹیسٹ کا جائزہ لیا جائے تو چار روز میں ختم ہونے والے میچ میں پاکستانی ٹیم کا ہر موقع پر پلہ بھاری نظر آیا اور اس نے کسی بھی لمحے حریف کو خود پر حاوی نہ ہونے دیا۔
عالمی نمبر ایک پروٹیز کے ہاتھوں رواں سال کے آغاز میں شکست اور پھر گزشتہ سیریز میں زمبابوے جیسی ٹیم کے ہاتھوں ناکامی کے بعد یقینی طور پر جنوبی افریقہ اور ناقدین سمیت کسی نے بھی گرین شرٹس سے اس قسم کی کارکردگی کی توقع نہیں کی تھی۔
لیکن شاید انہونی کو ہونی کر دینے کی یہ صلاحیت صرف پاکستانی ٹیم کے پاس ہی ہے۔
ایک موقع پر تنقید کی زد میں رہنے والی مصباح الیون پہلے ایک ورلڈ نمبر ون ٹیم کو کلین سوئپ شکست دے کر دنیائے کرکٹ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے، پھر دوسری عالمی نمبر ایک ٹیم کے ہاتھوں 49 رنز پر آؤٹ ہونے کا کارنامہ انجام دینے کے ساتھ ساتھ کلین سوئپ کی خفت برداشت کرتی ہے، پھر اسی پر بس نہیں ہوتا بلکہ زمبابوے جیسی کمزور ٹیم کے ہاتھوں بھی شکست کا تمغہ سجا کر ایک بار پھر سب کو حیران پریشان کر دیتے ہیں اور اب یہ۔
یہی شکست خوردہ ٹیم ایک بار پھر انہونی کا عزم لیے اٹھتی ہے اور دنیا کے بہترین فاسٹ باؤلنگ اٹیک کے سامنے تقریباً 450 رنز کر کے سب کو دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور کر دیتی ہے اور پھر یہی نہیں بلکہ دونوں اننگز میں اسی ٹیم کی بساط 250 رنز سے کم پر سمیٹ کر 7 وکٹ کی آسان فتح اپنے نام کر لیتی ہے۔
اس ٹیسٹ کی سب سے خاص پاکستان بیٹنگ لائن کی شاندار کارکردگی رہی جہاں خصوصاً نوجوان اوپننگ جوڑی نے 135 رنز کا شاندار آغاز فراہم کیا۔
پہلا میچ کھیلنے والے شان مسعود نے 75 رنز کی اننگ کھیل کر شاندار مستقبل کی نوید دی تو دوسری جانب خرم منظور زمبابوے سیریز کی فارم برقرار رکھتے ہوئے ورلڈ کلس باؤلنگ اٹیک کے خلاف 146 رنز بٹور کر اپنا انتخاب درست ثابت کر دکھایا۔
جہاں ایک طرف قومی ٹیم ہاتھ ایک فتح لگی تو دوسری جانب اب عوام نے ایک بار پھر اس اوپننگ جوڑی سے امید باندھ لیں ہیں اور وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا یہ دونوں نوجوان ایک عرصے سے اوپننگ میں موجود خلا کو پر کر پائیں گے جہاں گرین شرٹس کو سعید انور اور عامر سہیل کے بعد کوئی معقول اوپننگ جوڑی میسر نہ آئی۔
کپتان مصباح الحق نے ہمیشہ کی طرح بڑی اننگ کھیلنی کی روایت برقرار رکھی اور سنچری اسکور کر کے ناقدین کے منہ ایک بار پھر بند کر دیے، اس اننگ کے ساتھ مصباح پاکستان کی جانب سے سنچری کرنے والے عمر رسیدہ کھلاڑی بھی بن گئے ہیں۔
نوجوان اسٹائلش بلے باز اسد شفیق پر اس سیریز سے قبل خاصا دباؤ تھا، اس میچ کی پہلی اننگ میں وہ نصف سنچری کو سنچری میں تبدیل تو نہ کر سکے البتہ انہوں نے موقع پر قابل قدر اننگ کھیل کر کسی حد تک اپنے انتخاب سے انصاف کیا۔
بات کی جائے باؤلنگ کی تو پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے ذوالفقار بابر کی یہاں تعریف نہ کرنا یقیناً زیادتی کے مترادف ہو گا، خصوصاً دوسری اننگ میں انہوں نے دونوں ہی مواقعوں پر اپنے اسپیل کی پہلی گیند پر وکٹ لے کر جنوبی افریقہ کو ایک بڑے مجموعے تک رسائی سے باز رکھا جبکہ پہلی اننگ میں بھی ان کا اعتماد قابل دید تھا۔
دونوں فاسٹ باؤلرز محمد عرفان نے بھی اپنے کردار سے بھرپور انصاف کیا جہاں پہلی اننگ میں محمد عرفان تو دوسری میں جنید خان نے اہم پروٹیز مہرے کھسکا کر حریف کو گہری گزند پہنچائی، دوسری اننگ میں خاص طور پر جنید کی ریورس سوئنگ گیند بازی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی جس کی اسٹار باؤلر وقار یونس بھی تعریق کیے بنا نہ رہ سکے۔
پاکستان کے لیے واحد لمحہ فکریہ عدنان اکمل کی وکٹ کیپنگ ہے۔
فتح سے قطعہ نظر اس میچ میں عدنان کی کیپنگ اس معیار کی نہ تھی جس کا وہ ماضی میں مظاہرہ کرتے رہے ہیں، دوسری اننگ میں ایک موقع پر گریم اسمتھ کا اسٹمپ وہ یقینی طور پر چھوڑ چکے تھے لیکن حریف کپتان کی سست روی نے خوش قسمتی سے پاکستان کو یہ اہم وکٹ دلا دی۔
اس کے علاوہ ان سے چند کیچز بھی ڈراپ ہوئے جبکہ یہ بات صاف دکھائی دی کہ اسپن گیند بازوں کے مقابل انہیں وکٹوں کے پیچھے مشکل پیش آرہی ہے، اس سلسلے میں خود اکمل اور فیلڈنگ کوچ کو خاص محنت کرنا پڑے گی ورنہ بڑی ٹیموں کے خلاف ایک کیچ چھوڑنے کی بھی بعض اوقات بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت آسٹریلیا کے خلاف ہونے والا سڈنی ٹیسٹ ہے۔
اب آخر میں بات صف اول کے پاکستانی باؤلر سعید اجمل کی جنہوں نے بلا شبہ میچ میں اچھی باؤلنگ کا مظاہرہ کیا لیکن وہ میچ میں کچھ بجھے بجھے سے دکھائی دیے۔
ٹیم مینجمنٹ اور خود اجمل کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایک تو زیادہ تر عالمی ٹیمیں اجمل کی باؤلنگ سے واقف ہو چکی ہیں، دوسری بات یہ کہ سیریز سے قبل تمام ہیں ٹیمیں خصوصی طور پر اجمل کے کاری وار سے بچنے کے لیے خصوصی پریکٹس کرتی ہیں جس کے باعث اسٹار باؤلر کو اب وکٹ لینے میں تھوڑی دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیم مینجمنٹ خصوصاً باؤلنگ کوچ سعید اجمل کے اعتماد میں اضافہ کریں اور ان کا حوصلہ بڑھائیں کیونکہ بلاشبہ وہ اس وقت ناصرف قومی ٹیم بلکہ دنیا کے بہترین باؤلرز میں سے ایک ہیں۔
قومی ٹیم کی اگلی آزمائش دبئی میں ہونے والا دوسرا اور آخری ٹیسٹ میچ ہے جہاں مصباح الیون کے نقطہ نظر سے اچھی بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے اسٹار بلے باز اور پہلی اننگ میں سنچری بنانے والے ہاشم آملا کی میچ میں شرکت مشکوک ہے کیونکہ ان کے ہاں بچے کی ولادت متوقع ہے جس کے باعث وہ جنوبی افریقہ واپس لوٹ جائیں گے اور ان کی دوسرے ٹیسٹ سے قبل واپسی مشکل نظر آتی ہے۔
لیکن اگر آملا نہ ہوں تو بھی ایک بات تو طے ہے کہ اگلے میچ میں پروٹیز تر نوالہ ثابت نہیں ہوں گے اور سیریز میں بھرپور واپشی کی کوشش کریں گے۔
ایسی صورت میں گرین شرٹس کو اگلے میچ میں ایک بار پھر آل راؤنڈ کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا خاص طور پر بلے بازوں کو ایک بار پھر ڈیل اسٹین، ورنون فلینڈر اور مورنے مورکل جیسے باؤلرز کے خلاف 400 سے زائد رنز اسکور کرنا ہوں گے۔
اگر بلے باز ایک بار پھر ایسی ہی کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہتے ہیں تو کوئی شک نہیں کہ دنیا ایک بار پھر متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے ہاتھوں عالمی نمبر ایک ٹیم کو کلین سوئپ شکست سے دوچار ہوتا دیکھی گی۔