نقطہ نظر

یرغمال قوم

پوری قوم کو خوف نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے کیونکہ ریاست نے عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے

یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اور کتنی ہلاکتیں اور تباہیاں ہماری قومی قیادت کو نیند سے جگانے کے لئے کافی ہوں گی- نہ تو پشاورکی مارکیٹ میں حالیہ عرصہ میں ہونے والی بمباری سے ہلاک ہونے والے ایک ہی خاندان کے اٹھارہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں اور نہ ہی آل سینٹس چرچ میں عیسائی عبادت گزاروں کی خوںریز ہلاکتیں انہیں اب تک جھنجھوڑ پائی ہیں-

صرف پشاورہی میں ایک ہفتہ کے دوران دو سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے، لیکن کسی نے بھی روایتی تعزیتی پیغامات کے علاوہ کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا-

اس کے بجائے وزیراعظم نے تحریک طالبان پاکستان کے اس بیان کو سراہا کہ وہ ان حملوں کے ذمہ دار نہیں ہیں اور اس میں'غیر ملکی ہاتھ' ملوث ہے جو امن مذاکرات میں رخنہ ڈالنا چاہتا ہے-

ستم ظریفی دیکھئے کہ کچھ ہی دنوں بعد ٹی ٹی پی کے ایک ترجمان نے چرچ پر ہونے والے حملے کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ شریعت کے عین مطابق تھا، اور یہ کہ یہ حملہ اس کی ایک ذیلی تنظیم نے کیا تھا-

ایک طرف توعسکریت پسندوں کا خونی کھیل جاری ہے اور دوسری طرف ایک بیجان اور خوف زدہ قیادت طالبان سے رحم کی بھیک مانگے جا رہی ہے-

وزیر اعظم کا عاجزانہ اور معذرت خواہانہ رد عمل ان سخت رویوں سے بیحد مختلف ہے جو  دوسرے ممالک کے رہنمائوں کی جانب سے ظاہر کیا جاتا ہے جنھیں اسی قسم کی دہشت گردیوں کا سامنا ہے-

مثال کے طور پر کینیا کے صدر یوہورو کینیاٹا کے اس بیان کو دیکھئے جو انھوں نے گزشتہ مہینہ نیروبی کے ایک شاپنگ مال کے چار دنوں تک کے خونی محاصرہ کے بعد دیا تھا-

بزدلوں، ان کے ساتھیوں اور ان کے سرپرستوں کو کیفر کردار تک پہنجایا جائے گا، خواہ وہ کہیں بھی ہوں، مسٹر کینیاٹا نے زور دے کر کہا، جو حملہ آوروں کے خلاف آپریشن کی خود نگرانی کررہے تھے-

میں یقین دلاتا ہوں کہ ہماری قوم کو بطور خاندان جس غارت گری، ہلاکتوں، درد و کرب اور نقصان سے گزرنا پڑا اس کی پوری جواب دہی ہوگی-" انہوں نے اعلان کیا-

اسی دوران برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اپنا غیر ملکی دورہ مختصر کرکے فورآ وطن واپس پہنچے کیونکہ نیروبی مال کے یرغمالیوں میں بہت سے برطانوی شہری شامل تھے.

لیکن پاکستانیوں کا خون سستا ہے- اگرسینکڑوں پاکستانی بھی ہلاک ہوجائیں توہمارے حکمرانوں کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی- جب چرچ کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کا اندازہ لگایا جا رہا تھا تو عمران خان ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے عسکریت پسندوں کو تسلی دے رہے تھے کہ ٹی ٹی پی کو اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے- وہ یہ بات بھول گئے کہ عسکریت پسندوں کا نیٹ ورک غیرقانونی ہے اور اس کو کھلے عام کام کرنے کی اجازت دینا دہشت گردی کو جائز قرار دینے کےمترادف ہے-

جب صوبائی ملازمین سے بھری ہوئی ایک بس کو دھماکہ سے اڑا دیا گیا تو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ یہ کہہ رہے تھے کہ اعتماد سازی کے لیۓ اقدامات کئے جائیں تاکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لئے سازگار فضا پیدا ہوسکے- ہر خونریزی کے بعد وہ زیادہ بلند آواز میں ٹی ٹی پی کا دفاع کرنے لگتے ہیں-

حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں جو ایک قومی روزنامہ میں شائع ہوا، عمران خان نے کے پی اور فاٹا میں فوج کی موجودگی کو سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائ کے مترادف اور ٹی ٹی پی کو ویت کانگ قرار دیا جو ویتنام میں امریکی فوجوں کے خلاف لڑ رہے تھے-

اس قسم کے بیانات کو سادہ لوحی کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، یہ ان کے الجھے ہوئے ذھن کی عکاسی کرتا ہے-

ابھی ہمارے رہنما ٹی ٹی پی کی تعریف ہی کررہے تھے کہ وہ پشاور میں ہونے والے دو بڑے حملوں میں ملوث نہیں ہے کہ انھوں نے دیر میں ہونے والے دھماکے کی ایک ہولناک وڈیوٹیپ جاری کردی جس میں میجر جنرل ثناءاللہ کے علاوہ مزید دو افراد ہلاک ہوگئے تھے- انھوں نے ان افسروں کی ہلاکتوں کو پاکستان کی افواج کے خلاف جنگ میں ایک اہم فتح قرار دیا تھا-

ٹی ٹی پی کے ان دلیرانہ دعووں کے باوجود کہ انھوں نے پاکستانی فوج پر حملہ کیا تھا، وفاقی اور کے پی کی حکومتوں  پر کوئی اثر نہیں ہوا- پی ٹی آئ اور پی ایم ایل-ن کے رہنمائوں کا ردعمل تھا کہ امن کی کوششوں کو کوئی ختم نہیں کر سکتا-

اس بات کو تقریبا ایک مہینہ ہو رہا ہے کہ آل-پارٹی کانفرنس نے وفاقی حکومت کو طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کا اختیار دیا تھا- لیکن عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز پرلانے میں ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی ہے-

وجہ صاف ظاہر ہے- ٹی ٹی پی نے مذاکرات شروع کرنے کی جو تین شرائط رکھی ہیں ---- گرفتار عسکریت پسندوں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوجیوں کی واپسی اور امریکہ کے ڈرونز حملوں کا خاتمہ---- انھیں پورا کرنا مشکل ہے۔ موجودہ متضاد جذبات کی قوم کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے۔

یہ بات صاف ظاہر ہے کہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے- لیکن حکومت ابھی تک اسی سحر میں مبتلا ہے کہ مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔ اس رویہ سے طالبان کو ایک نئی زندگی پہلے ہی مل چکی ہے جو بہت سی قبائلی ایجنسیوں اور مالا کنڈ سے جو پہلے ان کے کنٹرول میں تھے پسپا ہو رہے تھے-

ٹی ٹی پی اپنے بہت سے سینئر کمانڈروں کو کھو چکی ہے جیسے ولی الرحمان اور اس کا نیٹ ورک ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے- لیکن اب ریاست کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر عسکریت پسند اپنے قدم بڑھا رہے ہیں- حکومت اس قدرخوفزدہ ہے کہ طالبان سے دھمکی ملنے کے بعد اس نے تین سزا یافتہ عسکریت پسندوں کی پھانسی کی سزا روک دی ہے جس میں 2009ء میں جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والا ماسٹرمائنڈ بھی شامل ہے-

نہ صرف یہ کہ ریاست اپنے شہریوں کی زندگیاں بچانے میں ناکام ہوچکی ہے بلکہ بہت سے پالیسی مسائل پر اس نے انتہا پسندوں کی آئیڈیالوجی کے سامنے ہتھیارڈال دیئے ہیں- یہ بات پریشان کن ہے کہ پاکستانی معاشرہ پر انتہا پسند عناصر کا اثر اگر زیادہ نہیں تو کم از کم اتنا ہی ہے جتنا کہ ریاست کا- جہاں ریاست عسکریت پسندی کے خلاف ایک قومی موقف پیش کرنے میں ناکام ہوچکی ہے وہاں ترقی کی مخالف تنگ نظر قوتوں کا اثر بڑھتا جا رہا ہے-

مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے ساتھ ساتھ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا معمول کی بات بنتی جا رہی ہے- ملک اب غیر ریاستی ایکٹروں کا یرغمال بن گیا ہے جو بندوق کی نالی کے زور پر اپنا راستہ بنا رہے ہیں-

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست اپنی طاقت کھو چکی ہے- یہ حیرت کی بات نہیں کہ نوے فیصد سے زیادہ تشدد پسند جو مبینہ طور پر دہشت گردی میں ملوث تھے 'شواہد کی کمی' کی وجہ سے عدالت نے رہا کر دئے- اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ججوں اور گواہوں کو دھمکیاں ملتی ہیں اور وہ اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیوں کو خطرہ میں ڈالنا نہیں چاہتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ریایست ان کا تحفظ نہیں کرسکتی-

پوری قوم کو خوف کے کلچر نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے کیونکہ ریاست اپنی تمام ذمہ داریوں سے دستبردارہو گئی ہے، اور اس نے عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے- اگر سیاسی رہنما ہی عسکریت پسندوں کی باتوں میں آجائیں توعوام ان پر اعتماد کیسے کرسکتے ہیں-

ترجمہ: سیدہ  صالحہ

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔