دنیا

نیویارک کی بگھیوں پر پابندی کا خطرہ

سیاحوں کے علاوہ، پہلی مرتبہ ڈیٹ پر جانے والے جوڑے، شادی کا پیغام دینے یا شادی کی سالگرہ کے موقع کو یادگار بنانے کے خواہشمند ان بگھیوں پر سواری کرتے ہیں۔

نیویارک شہر کی سڑکوں پر چلنے والی بگھیاں، جو اس شہر کے ماضی کا عکس پیش کرتی ہیں، ان گاڑیوں کو کھینچنے والے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں رُک سکتی ہیں۔

جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم افراد کا طویل عرصے سے یہ اعتراض چلا آرہا تھا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کی اس قدر پُرہجوم ٹریفک کے ساتھ گھوڑوں کے چلنے کے لیے اب کوئی جگہ باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اور اب تو ان لوگوں کو میئر کے عہدے کے دو نمایاں امیدواروں کی پشت پناہی بھی حاصل ہوچکی ہے۔

پانچ نومبر کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے والے ڈیموکریٹ پارٹی کے اہم حریف بل دی بلاسیونے نیویارک کی گھوڑا گاڑیوں کو ختم کرکے پُرانے وقتوں میں بجلی سے چلنے والی ٹرین چلانے کے منصوبے کی حمایت کی ہے۔ کم رفتار کی یہ ٹرین کار سینٹرل پارک کے اردگرد سیاحوں کے تفریحی سفر کے لیے چلائی جائے گی۔

ایک بگھی کی کوچوان کرسٹینا ہینسن کا کہنا ہے کہ لوگ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سننے کے لیے بھی یہاں آتے ہیں۔کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ان آوازوں کو روک دیا جائے۔

اس شہر کی ایک سو پچیس سال پرانی گھوڑا گاڑیوں کی صنعت کے خاتمے کا ناپسندیدہ معاملہ شہر میں میئر کے حالیہ انتخاب کے دوران جاری بحثوں کا حصہ بن گیا ہے۔

نیویارک کی ہارس اینڈ کیریج ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ گھوڑا گاڑیوں پر پابندی عائد کرنے کا مطلب ہوگا کہ دو سوسے زیادہ کوچوانوں، 68 گھوڑا گاڑیوں اور 210 گھوڑوں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کردی جائے جن سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈالرز کا سالانہ ٹیکس حاصل ہوتا ہے۔

اس صنعت کی خاصیت یہ ہے کہ اسے شہر کے سخت اصولوں پر چلایا جارہا ہے، اس کا باقاعدہ معائنہ کیا جاتا ہے۔گھوڑوں سےایک دن میں نو گھنٹوں سے زیادہ کام نہیں لیا جاسکتا ، یہ گھوڑے سال میں ایک مرتبہ کم ازکم پانچ ہفتےگھاس کے میدانوں میں گزارتے ہیں، لیکن ان گھوڑا گاڑیوں کو راک فیلر سینٹر، ٹائم اسکوائر اور لنکولن سینٹر کے علاقے میں شام کے مخصوص اوقات میں جانے کی اجازت ہے۔ؕ

ایک غیر منافع بخش جانوروں کے تحفظ کے لیے سرگرم گروپ نیویارک کلاس، نیویارکرز فار کلین، لائیو ایبل اینڈ سیف اسٹریٹس کا کہنا کہ گھوڑا گاڑیاں فرسودہ اور انسانوں کے لیے غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔

ایک گروپ کمپنی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایلی فیلڈمین کا کہنا ہے کہ وسطی شہر کی ٹریفک میں یہ گھوڑے دن بھر کے نو گھنٹے گزارتے ہیں، اور انہیں ٹرکوں اور بسوں سے ٹکرانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ گاڑیوں میں اپنی منہ گھسیڑ کر سونگھنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔

لیکن یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ اب تک تین دہائیوں کے طویل عرصے میں تین گھوڑے 1985ء، 1990ء اور 2006ء کے سالوں میں ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوچکے ہیں، لیکن پھر بھی گھوڑا گاڑیوں کو شہر میں چلانے کے حمایتی اور مخالفین کے درمیان گرما گرم بحث جاری ہے اور دونوں اطراف سے اعدادوشمار پیش کیے جارہے ہیں کہ اس سال شہر میں گھوڑا گاڑیوں کی وجہ سے کس قدر حادثات ہوچکے ہیں۔

ان بگھیوں کے کوچوان جو ہر روز پلازہ ہوٹل سے سینٹرل پارک کے جنوبی حصے کے اردگرد قطار بنائے گاہکوں کا انتظار کرتے ہیں، یہ بیس منٹ کی سواری کے پچاس ڈالرز لیتے ہیں۔ کیا واقعی پرانے نیویارک کا یہ رومانوی حصہ خطرے کی زد میں ہے۔ لوگ ان بگھیوں پر سواری کرکے ان دنوں کو یاد کرتے ہیں، جب گھوڑے اور بگھیاں ہی سواری کا واحد ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔ آج کل پہلی مرتبہ ڈیٹ پر جانے والے جوڑے، شادی کا پیغام دینے یا شادی کی سالگرہ کے موقع کو یادگار بنانے کے خواہشمند جوڑے ان بگھیوں پر سواری کرتے ہیں۔

یہ رنگ برنگی بگھیاں، اکثر پرندوں کے پروں اور پھولوں سے سجی ہوتی ہیں،انہیں بہت سے مقبول ٹی وی شوز اور فلموں میں بھی دکھایا جاچکا ہے۔

سکرو حسن جو ایک بگھی کے کوچوان ہیں، انہیں چھبیس سالوں کے لیے بگھی چلانے کی اجازت  مل چکی ہے، کا کہنا ہے کہ یہ بگھیاں نیویارک شہر کی ضرورت ہیں۔ سیاح جب یہاں آتے ہیں تو انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حیرت انگیز ہے، پھر وہ اپنی فیملی کو آواز دیتے ہیں کہ دیکھو ہم سینٹرل پارک کی بگھی میں پہلے بھی بیٹھ چکے ہیں۔

لیکن نیویارک کلاس نامی گروپ کا کہنا ہے کہ الیکٹرک ٹرین کار کا منصوبہ بھی ماضی کی یادوں کو تازہ کردے گا۔

چھپن برس عمر کے لاس اینجلس کے اٹارنی مائیک موران، جو اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک بگھی سے اتر رہے تھے، اس حوالے سے اپنے شبہہ کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاگل پن ہے، مجھے امید ہے کہ یہ ناکام ہوجائے گا۔ گھوڑوں کے بغیر نیویارک کا بہت سا اہم کردار کھوجائے گا۔