نقطہ نظر

اور اب27 اگست

کیا دوسرے وزیرِ اعظم بھی توہینِ عدالت کے مرتکب قرار پائیں گے۔

ایک اور وزیر اعظم ، ایک اور تذلیل۔  اگر ان کی حکومت نام نہاد سوئس خط نہیں لکھتی تو ستائیس اگست کی تاریخ کو ،راجہ پرویز اشرف کو چل کر سپریم کورٹ کے گیٹ سے کورٹ روم تک جانا ہوگا جہاں عین ممکن ہے کہ انہیں توہینِ عدالت کے جُرم کا مرتکب قراردیدیا جائے۔

اور یہی اصل مسئلہ ہے کہ جہاں عدلیہ، ایک واضح عدالتی فیصلے پر ایک اور وزیراعظم کی کٹہرے میں حاضری کو تذلیل تصور کرتی ہے وہیں پی پی پی اس تمام کاروائی کو ایک اورجرات مندانہ عمل قراردے گی  یعنی ایک اور جیالے کی اپنے رہنما ، آصف علی زرداری ،کی خاطر قا بل رشک قربانی۔

 جب جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں عدالتی بنچ نے پچھلی پیشی میں حکومت کی طرف صلح کا سفید جھنڈا لہرایا تھا تب سوئس خط کی اس ماورائے عقل کتھا کے اختتام کی خواہش رکھنے والے ہر شخص نے یہی امید کی ہوگی کہ شاید حکومت بھی ایسا ہی کریگی۔

مگر حقیقت سے دور اس امید میں ایک دائمی خدشہ بھی پنہا ں ہوگا اور وہ یہ کہ اگر پی پی پی کو خط لکھنے میں ذرا بھی دلچسپی ہوتی تووہ ایک وزیر اعظم کو ہٹائے جانے کا انتظار نہیں کرتی۔ درحقیقت چونکہ صدر اپنے منصب سے ہٹائے جانے کے خطرے سے ابھی بھی با ہر ہیں اسلئے ممکن یہی ہے کہ حکومت ،عدالت کے نئے وزیر اعظم کے بارے میں دئیے جانے والے ہر فیصلے کو قبول کریگی۔

اور اب یہ سب کچھ ہی وقت کی دوری پر ہوتا نظر آتا ہے۔گزشتہ روز پی پی پی نے سپریم کورٹ کی توجہ بٹانے کیلئے مزید حربے استعمال کئے جن میں توہین عدالت ایکٹ دو ہزار بارہ کی منسوخی کے خلاف نظر ثانی کی پٹیشن اور وزیر اعظم اشرف سے خط کے حوالے سے حکومتی کاروائی کے بارے میں عدالتی استفسار کے خلاف کی گئی پٹیشن شامل ہیں۔

ان تما م حربوں سے عدلیہ کو قابو نہیں کیا جاسکتا۔ مگر پی پی پی صرف وقت ضائع کرنے کی کوشش میں مصروف ہے تاکہ وقت تیزی سے گزر کر انتخابات کی گھڑی تک جا پہنچے اور تاکہ حکومت اسی پارلیمنٹ اور وزیراعظم کیساتھ مقررہ وقت پر انتخابا ت کا انعقاد کرا سکے۔اس سلسلے میں ناکامی کی صورت میں حکومت اپنا تیسرا وزیراعظم منتخب کرکے ، پانچ سالہ حکومت کے اختتام پر آئینی انتخابات کے اپنے آخری مقصد کی جانب لنگڑاتی ہوئی روانہ ہوجائیگی۔

تجسس یہ کہتا ہے کہ شاید پی پی پی کو اپنے مقصد میں عدالت سے ہی مدد حاصل ہوجائے۔ خواہ اسکے پہئے تیزبھی گھومتے رہیں مگر انصاف کی گاڑی چلنے میں کافی وقت لیتی ہے اور اس حقیقت کی بہترین مثال یوسف رضا گیلانی کی نااہلی پر ختم ہونے والی کئی ماہ پر محیط کاروائی ہے۔اگر اس بار بھی معاملات کا یہی شیڈول رہا تو شاید راجہ پرویز اشرف کو وزارت عظمیٰ کے کئی اور ہفتے یا شاید مہینے عید کے تحفہ کے طور پر قبل از عید مل جائیں۔