پاکستان کی داستانِ ہوش رُبا - حصہ دوئم
گزشتہ برسوں میں ڈان کے پاکستان اور بیرون ملک مقیم قارئین مجھ سے وقتاً فوقتاً بذریعہ ای میلز شکایت کرتے رہے ہیں کہ جب بھی وہ انٹرنیٹ پر پاکستان سے متعلق ایسی تصویریں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں خوفناک نظر آنے والے ملا، خودکش دھماکوں اور مسخ شدہ لاشویں کم یا نہ ہونے کے برابر ہوں تو انہیں ناکامی کا سامنا رہتا ہے ۔
میں پچھلے کئی سالوں سے اخبارات کی لائبریریوں اور اپنے والدین، دوستوں اور عزیزو اقارب کے پاس موجود تصویروں کے ذاتی ذخائر کو اس کوشش کے تحت کھنگالتا رہا ہوں کہ میں پاکستان کے نیم 'اسلامی' آمریت کے خونی رنگ میں رنگنے سے قبل ثقافت و معاشرے کی تبدیلیاں اور رجحانات کی یادداشت محفوظ کرسکوں۔
آمریت کے خونی چھینٹے آج بھی شدت غم اور زخموں سے چور پاکستان کے دامن پر دیکھے اور محسوس کئے جا سکتے ہیں۔
انیس سو اسی کی دہائی کے وسط کے بعد کے حالات کے مقابلے میں اس گم گشتہ پاکستان کی یادیں اب اتنی کم رہ گئیں ہیں کہ آج ہمارے اُس زمانے کا ملک دور دراز کا کوئی اجنبی سیارہ معلوم ہوتا ہے ۔
یہاں میں آپ کے ساتھ اُسی گمشدہ دنیا کی کچھ دلچسپ تصاویر پیش کرونگا جو میں پچھلے چند برسوں میں جمع کر سکا ہوں۔ایسی دنیا کہ جس کا نام بھی پاکستان تھا۔
انیس سو انسٹھ میں گویرا اپنے عرب اور تیسری دنیا کے ممالک کے طوفانی دورے کے دوران کچھ دنوں کیلئے کراچی قیام پزیر رہے۔ انہوں نے 1965 میں دوبارہ کراچی کا دورہ کیااور مندرجہ بالا تصویرغالباً اسی وقت کراچی ایئرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں لی گئی تھی۔
چے کا ایوب خان کے ساتھ کھڑا ہونا یقیناًایک دلچسپ بات ہے کیونکہ ایوب خان کی 1958 میں فوجی بغاوت کو نہ صرف امریکا کی حمایت حاصل تھی بلکہ وہ پاکستان میں بائیں بازو کی طاقتوں کے شدید مخالف بھی تھے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی بائیں بازو کی جس تحریک نے ایوب خان کی آمریت کا تختہ الٹنے میں مدد دی تھی اسکی قیادت انہیں بائیں بازوکے طالب علموں نے کی تھی جن کے ہیرو کا نام تھا، جی ہاں،ارنیسٹو گویرا!
ذرائع : عدنان فاروق(ویوپوائنٹ میگزین)، شاہد سعید(فرائڈے ٹائمز)
پی آئی اے کا اخبارمیں ایک اشتہار: 1965 میں ڈان میں شائع ہونے والا یہ اشتہار ایک ایس دعوی کرتا نظر آتا ہے جس کا موجدہ دور میں گمان بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ پچھلے کئی برسوں سے زبوں حالی کا شکار پاکستان کی قومی ایئر لائن آج دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑی ہے۔اس کے باوجود ، ساٹھ اورسترکی دہائی کے اوائل میں، پی آئی اے ایک مضبوط اور قابل فخر ادارہ تھا جسے کئی موقعوں پر ایوارڈز سے نوازا گیا اور دنیا کی دس بہترین ایئر لائنز کی فہرست اسکے بغیر نامکمل تھی! جس زمانے میں یہ اشتہار شائع ہوا اس وقت پی آئی اے ملکی سطح پر اور دنیا میں تیزی سے ترقی کا سفر طے کر رہی تھی ۔ یہ ادارہ اس وقت انتہائی خوش لباس ایئر ہوسٹسوں، عمدہ سروس، وسیع وعریض روٹ، اور جہازوں پر وائن، وہسکی اور بیئرکے ایک وسیع اور خوش ذوق ذخیرے کے حوالے سے مشہور تھی۔ واضع رہے کہ پی آئی اے میں الکحل سے بنے مشروبات سے تواضع پر پابندی اپریل 1977 میں لگی تھی۔ ذرائع : کیپٹن سمیع مرزا (پی آئی اے کے سابق پائلٹ)، السٹریٹڈ ویکلی(جون، 1968 ایڈیشن)، پاکستان اکانومسٹ(اپریل،1978 ایڈیشن درحقیقت ، یہ سینما گھر آج بھی موجود ہے اور خود کو زندہ رکھنے کیلیے نئی ہندوستانی اور انگریزی فلموں کی نمائش کر رہا ہے۔
ذرائع: ففٹی ایئرز آف پاکستانی سنیما (مشتاق گزدار)،عقیل جعفری ماضی کے تجربے کی بنیاد پریہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانیوں میں حقائق سے انکار کی عادت کوئی نئی نہیں کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ پاکستانیوں کی کثیر تعداد کیلئے 1971کی چونکا دینے والی شکست اچانک اورحیرت انگیزطور پر سامنے آئی تھی۔ ریاستی میڈیا اور مسلح افواج نے اپنی شکست تک ناگزیر فتح کے دعوے جاری رکھے ہوئے تھے۔ درحقیقت ، شکست سے کچھ گھنٹے پہلے ریڈیو پاکستان پر پڑھی جانے والی خبروں میں نیوز کاسٹر نے بتایا تھا کہ پاکستان ہندوستانی فوج کو نقصان پہنچائے چلا جا رہا ہے اور ہم نے یہ سب کچھ ایسے ہڑپ کر لیا جیسے کوئی بچہ اپنے تصور میں آئسکریم کھاتا ہو۔ ذرائع : اے ہسٹری آ ف ریڈیو پاکستان (نہال احمد)
ان مسافروں کی سہولت کیلئے جہاں پشاور، کراچی اور لاہورمیں کئی سستے ہوٹل کھلے وہیں سیاحت کی صنعت نے بھی تیزی سے ترقی کی۔ انیس سو ستتر میں پاکستان پر ہونے والے فوجی قبضے،1979 میں پیش آنے والے ایرانی انقلاب اور 1979 میں افغان خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے اس ہپی ٹریل کے نقوش مٹتے چلے گئے ۔ ذرائع : ایڈی ووڈز ۔ فوٹو
ایک نائٹ کلب کے سابقہ مالک،ٹونی طفیل کے مطابق، اگر نائٹ کلبز پرپابندی نہ لگتی تو آج کراچی کو وہ مقام حاصل ہوتا جو اب دبئی کو حاصل ہے۔ نائٹ کلبوں پر اپریل 1977 میں پابندی لگا دی گئی تھی۔ ذرائع: انڈرسٹینڈنگ کراچی (عارف حسن)، انسٹنٹ سٹی ۔ اسٹیو انزکیپ
انکے دورے کو پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) اور پریس کی جانب سے بھرپور کوریج ملی تھی۔ خلابازوں کے اعزاز میں موٹر گاڑیوں کا ایک استقبالی جلوس بھی نکالا گیا تھا جو کلفٹن روڈ سے شروع ہوکرٹاور کے علاقے میں ختم ہوا تھا۔ تصویر میں یہ قافلہ صدر کے علاقے میں داخل ہوتا نظر آرہا ہے، جہاں پاکستانی، امریکی اور پی پی پی کے جھنڈوں اور رنگ برنگے بینر آویزاں تھے۔ تصویر میں کچھ خلا ء باز ایک کھلے ٹرک میں سفرکرتے نظر آ رہے ہیں ۔ ٹرک پر ایک بینر بھی آویزاں ہے جس پر اردو میں لکھا ہے:اپولو ۱۷ کے خلاء پیماوں کو خوش آمدید۔ ذرائع : امریکی قونصلیٹ جنرل پاکستان
ذرائع : ڈان انیس سو پچھترمیں ملکی فلم صنعت کے تابناک دور میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے پوسٹر میں کوئی غیر معمولی بات نہیں۔البتہ،ذرا وہسکی کی بوتل پر نظر ڈالئے،واٹ 69۔ مرحوم فلمساز اور مورخ مشتاق گذدر کے مطابق، وہسکی کا یہ برانڈ پچاس اور ستر کی دہائیوں کے دوران سینکڑوں پاکستانی فلموں میں نظرآیا کرتا تھا۔ مگر واٹ 69 ہی کیوں؟ گذدر یقینی طور پر تو نہیں جانتے مگر انہوں نے یہ مشاہد ہ ضرورکیا کہ زیادہ تر پاکستانی ہدایتکاروں نے اس برانڈ کی وہسکی کا استعمال تب کیا جب انہیں فلم میں کسی اچھے آدمی کوغموں سے نجات کیلیے شراب میں ڈبوتے دکھانا مقصود ہوتا تھا جبکہ دوسری برانڈز کا استعما ل تب کیا جاتا تھا جب کوئی برا آدمی شراب نوشی کرتے دکھایا جاتا۔ نیز، کراچی کے شراب خانے اور نائٹ کلب یوں تو بیئر، واڈکا اور وہسکی کی مقامی برانڈز سے بھرے ہوتے تھے مگروہ بھی واٹ 69 کوزیادہ تر درآمد شدہ ونٹیج شراب کے طور پر پیش کرتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ،1977 میں مسلمانوں کو شراب کی فروخت پر پابندی کے بعد واٹ 69 نے اپنا پرانا رتبہ کھودیا اور اسکی جگہ مقامی برانڈز(لائن وہسکی اور بلیک لیبل) نے لے لی ۔
لائن وہسکی کراچی اور اندرون سندھ میں 'لائسنس یافتہ' وائن شاپس پر دستیاب ہے جبکہ بلیک لیبل بیوپاریوں کے پاس ذخیرہ ہوتی تھی ۔
انیس سو پچھتر کی اس تصویر میں پاکستان کے مشہور مصور، مجسمہ ساز اور دورے پر آئے ہوئے ایک برطانوی فنکار کراچی آرٹس کونسل میں نظر آرہے ہیں۔ عمارت کے اند ر تمباکو نوشی کرتے ان فنکاروں کی وضعدار پتلونیں ، قلمیں وغیرہ تو دیکھیں۔ زبردست۔ سن 1977 کی اس تصویر میں اسلام آباد کے میریئٹ ہوٹل (اس وقت ہالی ڈے اِن کے نام سے مشہور) کی تعمیر کا کام جاری نظر آ رہا ہے۔ تقریباً تین دہائیوں بعد اس مشہور ہوٹل کو خودکش حملہ آوروں اور یا پھر ان دماغی مریضوں نے تباہ کر دیا تھا جنہیں جنت میں بک کیے جانے والے کمروں تک پہنچنے کی کچھ زیاد ہ ہی جلد ی تھی۔ ہوٹل کے سامنے موجود بیا بان زمین کا موازنہ آج اسی علاقے میں موجود چوڑی سڑکوں، ٹریفک کے اشاروں، درختوں کی قطاروں سے کریں تو معاملہ بالکل برعکس نظر آئے گا۔ اس شو میں مشہور ڈرامہ نگاراشفاق احمد اور بانو قدسیہ(دائیں جانب بیچ میں) میزبان کے ساتھ سوشلسٹ ڈرامہ نگاری پر گفتگو کرتے نظر آرہے ہیں۔ انیس سو چھہتر کی یہ تصویر نوبل پرائز جیتنے والے پاکستانی سائنسدان ، ڈاکٹر عبدالسلام(دائیں) اور ان کے ایک ساتھی کی ہے جو پاکستان کی خوبصورت سیاحتی مقام نتھیا گلی میں منعقدہ سمر کالج کے دوران لی گئی تھی۔ پاکستان کے ذہین ترین شخصیات میں شمار کئے جانے والے اوراحمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سلام، حکومت کی جانب سے پچاس کی دہائی سے لیکر 1974 کے دوران بیشتر سائنسی اور ترقیاتی منصوبوں سے منسلک رہے۔ انیس سو تہتر کے آئین میں احمدیوں کے غیر مسلم قرار دیے جانے پر وہ احتجاجاً پاکستان چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ بہر کیف،دوستوں کی دعوت پر وہ اکثرو بیشر ملک میں واپس آتے رہے، تاہم اس دوران انہوں نے کبھی بھی ان لوگوں سے میل جول نہ رکھا جنہوں نے احمدیوں کو ان کے ہی آبائی ملک میں غیر مسلم قرار دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ذرائع : عبدالسلام آرکائیوز (پکچر)۔ سن 1974 کی باکس آفس ہٹ فلم 'مس ہپی' کی موسیقی پر مشتمل البم(ایل- پی) کا کور۔ فلم کی کہانی کا مرکز ہپیوںکے طرزِ زندگی اور ان کی فیشن کے پاکستانی نوجوان نسل پر پڑنے والے اثرات تھے۔ ستر کی دہائی کی مشہور اداکارہ شبنم کی اس فلم میں یہ حقیقت نظر انداز کر دی گئی کہ ملک میں یلغار کرنے والے ہپی جو حشیش پیتے تھے اس کا نصف سے زائد حصہ پاکستان میں ہی کاشت ہوتا تھا یا پھر یہیں سے درآمد و بر آمد کیا جا رہا تھا۔
انیس سو ستتر کی اس یادگار تصویر میں مرحوم پیر پگارا کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے۔ پگارا اُس وقت بھٹو حکومت کے خلاف دائیں بازو کی ایک تحریک کی رہنمائی کر رہے تھے۔ اس پریس کانفرنس کے دوران جماعت اسلامی،جمعیت علماء اسلام اور جمیعت علماء پاکستان کے کچھ ارکان بھی موجود ہیں۔ اسکے بعد یہ حضرات نماز ادا کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ مگر تحریک کے مذہبی رہنماؤں کے درمیان اس وقت ہنگامہ کھڑا ہوگیا جب جماعت اسلامی اور جماعت علماء اسلام کے ارکان نے جمیعت علماء اسلام کے رہنما شاہ نورانی کی امامت میں نماز ادا کرنے سے انکار کردیا۔ جمیعت علماء اسلام دیوبند مسلک سے تھی جبکہ نورانی کا تعلق بریلوی فرقہ سے جڑی جمیعت علماء پاکستان سے تھا۔ حالانکہ وہ سب بھٹو کے 'سوشلزم' کے خلاف متحد تھے مگر دونوں فریقین ایک دوسرے کو بھٹکے ہوئے مسلمان تصور کرتے تھے۔ ہندوستانی غزل کے بادشاہ و ملکہ ، جگجیت سنگھ اور چترا کے 1979 میں لاہور کے دورے کا ایک نادر پوسٹر۔ اس دورے میں انہوں نے کئی کامیاب محفلوں کا انعقاد کیا، سب سے بہترین اور رنگارنگ محفل شہر کے تاریخی شالیمار باغ میں سجی۔ ضیاء الحق کی ظالم آمریت کے خلاف اٹھنے والی کئی تحریکوں میں نسواں تنظیمیں بھی پیش پیش رہیں۔ 1980 کی اس تصویر میں کالج کی طالبات لاہورمیں پرتشدد احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ احتجاج خواتین سے روا رکھے جانے والے ضیاء حکومت کے حاکمانہ سلوک کے خلاف تھا۔ ذرائع : ہیرالڈ (اپریل،1980)۔ یہ پاکستانی بائیں بازو کے بدنام انتہا پسند سلام اللہ ٹیپوکی ایک نادر تصویرہے۔ 1981 میں ٹیپو نے اپنے تین ساتھیوں کے ہمرای پی آئی اے جہاز کو ہائی جیک کر لیا تھا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے اس طالبعلم رہنما نے ضیاء الحق آمریت کے خلاف گوریلا جنگ شروع کرنے کے غرض سے مرتضیٰ بھٹو کی الذولفقار تنظیم (اے زیڈ او) میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ جہاز کو کراچی سے ہائی جیک کرنے کے بعد پہلے کابل اور پھر دمشق لے جایا گیا۔ کلاشنکوف اور ہینڈ گرینیڈ ز سے لیس ٹیپو اور اسکے ساتھیوں نے مسافروں کو اس وقت آزاد کیا جب ضیاء حکومت پچاس سے زائد سیاسی قیدیوں کو جیلوں سے رہا کرنے پر رضامند ہوگئی۔ شومئی قسمت، 1984 میں مارکسٹ نظریے سے متاثر انقلابی ٹیپوکومرتضیٰ بھٹو سے علیحدگی کے بعد کابل کی سوویت حمایت یافتہ حکومت نے پھانسی پر چڑھا دیا تھا جبکہ باقی ہائی جیکرز لیبیا چلے گئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ آج بھی وہیں مقیم ہیں۔ ذرائع : دی ٹیررسٹ پرنس (راجہ انور)، عباس علی اسی سیریز کا پہلا حصہ پڑھنے کیلیے کلک کریں
ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔
ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@
