ٹی وی چینل کے بعض تبصرہ نگاروں کی مبالغہ آمیزقیاس آرائیوں کو سن کر کراہیت محسوس ہو رہی تھی،جن کا کہنا تھا کہ کامرہ ایئربیس کے حملے کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ تھا بلکہ بعض تو اپنے فا ترالعقل سازشوں کے نظریات کو درست قرار دینے کے لئے ایک امریکی اخبار کی رپورٹ کا حوالہ دے رہے تھے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ عین ممکن ہے کہ کامرہ بیس کا تعلق پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام سے ہو –
انہوں نے تو ٹی ٹی پی کے ترجمان کے اس بیان کو بھی سہولت کے ساتھ نظر انداز کر دیا تھا جس میں اس بہیمانہ حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔
بات صرف یہی نہیں ہے کہ ان مبصّرین کو سازشوں کا ما لیخولیا ہو گیا ہے بلکہ ان میں سے بعض تبصرہ نگار تو جن میں سے اکثر ریٹایئرڈ فوجی افسر ہیں اور آجکل اکثر و بیشتر ٹی وی اسکرین پر نظرآتے ہیں کھلے بندوں عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں -ایک ریٹایئرڈ جنرل نے تو اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان کے اس فیصلے کے بعد کہ نیٹو سپلائی لائن دوبارہ کھول دی جاۓگی عسکریت پسندوں نے شریعت کے مطابق بجا طور پر محسوس کیا ہوگا کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کیا جائے۔ بعض سیاستدانوں نے تو عسکریت پسندوں کی مذمت کرنے کی بجاۓ یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ "یہ ہماری جنگ نہیں ہے۔
انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ ہم ابھی تک اس احمقانہ بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہ ہماری جنگ ہے یا نہیں جبکہ دوسری طرف بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور تشدد آمیز مذہبی انتہا پسندی نے اس ملک کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے - یہ وہی عسکریت پسند ہیں جنہوں نے ریاست اور اس کے عوام کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے - اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو ہم ان مسلح حملہ آوروں کے خلاف لڑیں یا پھر ان کے آگے ہتھیار ڈال دیں جو پاکستان کو دوبارہ عہدِ تاریک میں لے جانا چاہتے ہیں۔
جنرل کیانی نے یوم آزادی کے موقع پر کاکل میں تقریر کرتے ہوئے با لکل صحیح کہا تھا کہ یہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی جنگ ہے اور ہم اس جنگ کو لڑنے میں حق بجانب ہیں - ہم ان کی اس راۓ سے اتفاق کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ کوئی بھی ریاست کسی متوازی نظام یا عسکری قوتوں کو برداشت نہیں کر سکتی .اور اگر اس مسلہ پر عوام تقسیم ہو جائیں تو ملک خانۂ جنگی کا شکار ہو جاۓگا۔
اگر ریاست مسلح عسکریت پسندوں کو اس بات کی اجازت دے دے کہ وہ درندگی کے ساتھ عوام پر اپنی خواہش مسلط کریں تو ایسی ریاست اپنی خودمختاری قائم نہیں رکھ سکتی .صلح جوئی کی پالیسی نے ملک کو پہلے ہی بھاری نقصان پہنچایا ہے جس کی قیمت ہم انسانی جانوں کی زیاں نیز معاشرے اور معیشت پر اس کے کلّی اثرات کی شکل میں ادا کر چکے ہیں -کیانی کی تقریرملک میں عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کی حکمت عملی میں ایک بنیادی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اگرچہ ہماری سکیورٹی فورسز قبائلی علاقوں میں اور خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں گزشتہ چند برسوں سے طالبان کے خلاف نبرد آزما ہیں لیکن آرمی لیڈرشپ کی جانب سے جان بوجھ کر ابہام کی پالیسی روا رکھی گئی تھی کہ ہمارا دشمن کون ہے سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے منافقت سے کام لیا گیا اور انھیں بتایا گیا کہ وہ ہندستانیوں یا غیر ملکی ایجنٹوں کے خلاف لڑرہے ہیں -جنرل کیانی کی وضاحت کے مطابق کسی بھی فوج کیلئے یہ مرحلہ بڑامشکل ہے کہ وہ اپنے ہی عوام کے خلاف جنگ لڑے۔
تب بھی عوام کو اور خاص طور پر فوجیوں کو لازماً اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ وہ کس کے خلاف لڑ رہے ہیں اور کیوں. انھیں علم ہونا چاہئے کہ دشمن ہمارے معاشرے کے اندر ہی موجود ہے نہ کہ غیر ملکی -عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ نظریاتی جنگ بھی ہے -اس لئے اس ابہام کو دور کرنا ضروری ہے کہ ہمارا دشمن کون ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اس خطرناک مغالطےسے باہرنکلیں کہ ہم غیر ملکی سازشوں کا نشانہ ہیں -
یہ ہمارے ہی لوگ ہیں جو ہمارے ا سکولوں،مکانوں اور عبادت گاہوں کو دھما کوں سے اڑارہے ہیں - ہزارہا پاکستانی سپاہیوں نے ان گروہوں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانیں دیں جنھیں کبھی ہم اپنا حفاظتی ا ثا ثه سمجھتے تھے اب یہ گروہ اپنے ہی ملک کے اندر جہاد کر رہا ہے -اب یہ نہ صرف اپنے پر عائد کردہ پابندیو ں کی مزاحمت کر رہے ہیں ، نہ صرف آج بھی فعال ہیں بلکہ اپنی تنظیموں کو پھیلا بھی رہے ہیں یقیناً یہ لوگ غیر ملکی نہیں ہیں بلکہ ہمارے ملک ہی کی پیداوار ہیں جو طاقت کے ذریعہ اپنے انحطا ط پذیر عالمی نظریات کو ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
کامرہ کے بیس پر حملے نے ثابت کر دیا ہے کہ عسکریت پسندوں نے ایک نیا جنم لیا ہے اور وہ پھر سے منظم ہو گئے ہیں گو کہ سوات اور جنوبی وزیرستان کے فوجی اپریشن کے بعد حقیقتا ان کی پسپائی ہوئی تھی لیکن اب ان کے حملے مزید پیچیدہ اور خطرناک ہو گئے ہیں .اب ان کے حملوں کا نشانۂ صرف فوجی تنصیبات ہی نہیں ہیں بلکہ مساجد ، منادر اور دیگر عبادت گاہیں بھی ان کی زد میں ہیں۔
در حقیقت پورے کا پورا ملک ہی میدان کارزار بن گیا ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں عوام دہشت پسندی، فرقه وارانہ جھگڑوں اور مذہبی بنیادوں پر تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں .دو درجن سے زیادہ شیعہ فرقه سے تعلق رکھنے والے افراد کو بسوں سے اتار کر بے رحمی سے گولیوں کا نشانۂ بنا دیا گیا یہ سانحہ اسی دن پیش آیا جس دن کامرہ بیس پر حملہ ہوا تھا۔
گو کہ ان واقعات کے درمیان کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ہی حملہ آوردنیا کے بارے میں ایک جیسے نظریات کے حامل ہیں -پاکستان میں فرقه واریت کی بنیاد پر قتل عام کوئی نیا مظہر نہیں ہے -اس کا ملک میں تحریک طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر سے گہرا تعلق ہے۔
یہ امر مزید تشویش کا با عث ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری سے دست بردار ہو گئی ہے - ملک کی بعض اعتدال پسند سیاسی پارٹیاں بھی اپنے تنگ سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے سرگرمی کے ساتھ ان بنیاد پرستوں کے ساتھ شامل ہو گئی ہے -عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کی حمایت سے ان کے انکار نے انتہا پسند قوتوں کو طاقت بخشی ہے -جو بات حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں کی سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ انتہا پسندوں سے دبنے کا مطلب ہے خود اپنی قبر کھودنا - عسکریت پسندی اور انتہا پسندی جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
دریں اثنا عسکریت پسند خوف کی لہر پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں - یوں لگتا ہے کہ کمزور انتظامیہ کی وجہ سے جو ان کی گھن گرج سے دبی نظر آتی ہے انھیں اس سے کہیں زیادہ جگه حاصل ہو گئی ہے جو حقیقی عوامی حمایت کے نتیجہ میں انھیں حاصل ہوتی - میڈیا کا کچھ حصہ بھی انکے انتہا پسند نظریات کو آگے بڑھانے میں انکی مدد کر رہا ہے۔
سکیورٹی ایجنسیاں بھی عسکریت پسندوں کے بعض گروہوں کی مسلسل سرپرستی کر رہی ہیں. اور ان کے بڑھتے ہوئے اثر کے آگے بند باندھنے میں ریاست کی ناکامی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے - جنرل کیانی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ آرمی سمیت ریاست کے تمام اداروں سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور وہ یہ سمجھ نہیں پاۓ کہ عسکریت پسندی ملک کے لئے کس قدر سنگین خطرہ ہے - ہمیں توقع ہے کہ ان غلطیوں کو دہرایا نہیں جاۓگا۔
اب یہ پاکستان کو بچانے کی جنگ ہے اور اس کیلئے ان تمام قوتوں کو اپنا اتحاد مضبوط تر کرنا ہوگا جو پاکستان کی ریاست کو ایک لبرل ، جمہوری ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں - اور یہ جنگ صرف فوجی وسائل سے نہیں جیتی جا سکتی - اس کے لئے لازم ہے کہ انتہا پسندی کی قوتوں کو نہ صرف سیاسی بلکہ نظریاتی سطح پر بھی شکست دی جاۓ۔
زاہد حسین صحافی اور مصنف ہیں۔