پاکستان

'اب سوات کی حنا، طالبان کے نشانے پر'

حنا کے والدین پریشان ہیں کہ بار بار درخواستوں کے باجود حنا اور انہیں سیکورٹی فراہم نہیں کی جا رہی ۔

پشاور: چند ہفتوں پہلے سوات میں امن کی پیامبر ملالئے یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے بعد مالا کنڈ میں عسکریت پسندوں کے خلاف آواز اٹھانے والی ایک اور طالب علم حنا خان اب طالبان کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔

بچیوں کی تعلیم اور امن کے پیغام کو پھیلانے والی حنا کے والدین پریشان ہیں کہ بار بار درخواستوں کے باجود حنا اور انہیں سیکورٹی فراہم نہیں کی جا رہی ۔

واضح رہے کہ حنا کا خاندان سیکورٹی وجوہات کی بنا پر سوات سے نکل کر کچھ عرصے سے کل اسلام آباد میں رہائش پذیرہیں۔

دو ہزار نو میں طالبان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والی گیارہوں جماعت کی حنا نے ڈان اردو ویب سائٹ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ سوات سے اس لیے نکلنے پر مجبور ہوئیں کیونکہ  وہاں لڑکیوں کو تعلیم کی وجہ سے عسکریت پسندوں سے خطرہ تھا۔

انہوں نے بتایا کہ تازہ دھمکیوں کے بعد وہ اسلام آٓباد میں بھی اسکول جانے سے قاصر ہیں ۔

دو ہزار آٹھ میں نیشنل پریس کلب میں طالبان کے خلاف کھلے عام پریس کانفرنس کرنے کے حوالے سے حنا کا کہنا تھا کہ ان کی ساتھی طالب علم انہیں بتاتی تھیں کہ سوات میں عسکریت پسند لڑکیوں کی تعلیم پر سختیاں کرنے کے علاوہ ان کے اسکولوں کو دھماکوں سے اڑا رہے ہیں، لہذا انہوں نے ان لڑکیوں کا مستقبل بچانے کی خاطر میڈیا میں آواز بلند کی تھی۔

انہوں نے دوسرے طالب علموں کے ہمراہ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں بھی ریلی نکالی تھی تاکہ دنیا اور میڈیا کو سوات کی خواتین کو درپیش مسائل کی طرف متوجہ کیا جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اسلام آباد میں بھی اپنی تعلیم جاری رکھنے سے قاصر ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ کہیں ان پر حملہ یا اغواء نہ کر لیا جائے۔

حنا کے والد رائت اللہ خان نے ڈان ۔ کام کو بتایا کہ رواں سال اگست میں ان کی بیوی فرحت کو، جو خود بھی ایک سماجی کارکن ہیں، دھکمی آمیز فون کالز ملنا شروع ہو گئی تھی۔

رایت اللہ  کا کہنا تھا کہ انہیں ماضی میں بھی ایسی دھمکیاں ملتی رہی ہیں تاہم اس مرتبہ وہ بہت زیادہ پریشان ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ روز قبل ان کے گھر کے دروازے پر سرخ رنگ کا نشان لگا ہوا تھا، انہوں نے یہ سوچ کر اسے مٹا دیا کہ یہ کسی کی شرارت ہو گی تاہم اگلے روز دوبارہ دروازے پر سرخ نشان سے وہ خوف زدہ ہو گئے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگلے ہی روز ان کو ایک فون کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ ملالئے کے بعد ان کا اگلا ہدف حنا کا ہے، اس کال کے بعد سے پورا خاندان انتہائی خوف زدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل موت کے خطروں کا مقابلہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کی بیوی فرحت نے بھی خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھائی تھی۔

ایک دہائی تک  بطور سماجی کارکن کام کرنے والی فرحت نے بتایا کہ انہیں پشاور کے لینڈ لائن نمبر سے ایک فون کال موصول ہوئی تھی جس میں حنا اور پورے خاندان کو ہدف بنانے کی دھکی دی گئی تھی۔

فرحت نے کہا: جب دوہزارچھ میں ہم نے سوات کی خواتین کی جانب سے بنائی گئی دستکاری اور آرٹ کے نمونوں کی ایک بڑی نمائش کی تو ملا فضل اللہ کے شدت پسندوں نے ہمیں ایف ایم ریڈیو پر قتل کی دھمکیاں تک دیں مگر اب ملالئے کے واقعے کے بعد یہ دھمکیاں ذیادہ شدت سے موصول ہورہی ہیں۔

' لیکن اب میں بہت پریشان ہوں، کیونکہ نئی دھمکیوں کے بعد میں نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا بند کردیا ہے اور اب وہ گھر تک ہی محدود ہیں،' فرحت نے بتایا۔

انہوں نے مزید کہا: ' میں نے ذاتی طورپر وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک سے رابطے اور بات کرنے کی کوشش کی اور وزارتِ داخلہ کو خود ایک درخواست بھی بھجوائی ساتھ ہی اقلیتوں کے سینیٹر امر جیت سنگھ کے زریعے بھی ان سے رابطے کو کوشش کی لیکن میرے بچوں کی حفاظت کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا جاسکا۔ '

رایت اللہ نے بتایا کہ وزارتِ داخلہ نے حال ہی میں دس اکتوبر کے واقعے سے متعلق رپورٹ ایک سینیئر پولیس افسر کو دی ہے لیکن ان کی حفاظت کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا جاسکا کیونکہ پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس کو تعین کرنے کے  واضح احکامات دئیے جائیں کیونکہ محض رپورٹ پر ایکشن نہیں لیا جاسکتا۔

رایت اللہ نے کہا کہ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ کوئی دھمکیاں ملنے کے بعد حفاظتی اقدامات کی درخواست کررہا ہے تو اداروں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں لیکن جیسے ہی کوئی بڑا واقعہ پیش آتا ہے یہ فوراً سرگرم ہوجاتےہیں۔

' ہم اپنے ہی گھر میں یرغمال بن چکے ہیں ، میں اپنی تین بیٹیوں ، دو بیٹوں اور خاندان کی حفاظت چاہتا ہوں تاکہ وہ آزادنہ طور پر سکون سے رہ سکیں،' اس نے کہا۔

رائت اللہ نے کہا کہ انہوں نے دہشتگردوں کے ڈر سے اسلام آباد میں بھی کئی مرتبہ گھر تبدیل کئے لیکن اب جبکہ شدت پسندوں کو ان کے گھر کا پتہ چل چکا ہے اس لئے مزید چھپنا خطرناک ہوسکتا ہے ۔ " ہمیں کچھ نہیں چاہئے ، میرا خاندان اور بچے صرف حفاظت اور امان چاہتے ہیں۔

ظاہر شاہ شیرازی، بیورو چیف ڈان نیوز، پشاور