نقطہ نظر

لاپتا نکتہ

اصغر خان کیس کا اہم نکتہ جنرلوں کا کردار ہے مگر فیصلے پرسیاسی جنگ میں یہ نکتہ پس منظر میں چلاگیا ہے

اگر پاکستانی سیاستدانوں میں کوئی خاص صلاحیت ہے، تو وہ با معنٰی تبدیلی کے ان مواقعوں کو ضائع کردینے کی قابلیت ہے جو چاندی کی طشتری میں سجا کر انہیں پیش کیے جاتے ہیں۔

اپنی تمام ترعلامتی اہمیت کے باوجود، اس وقت اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا دیا ہوا مختصر فیصلہ تمام ترغلط وجوہات کے ساتھ خبروں میں ہے۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ 'یہ ثابت ہوچکا' کہ سابق جنرلوں مرزا اسلم بیگ اور اسلم درانی نے سن نوّے کے عام انتخابات میں دھاندلی کرکے 'آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔'

اب اس فیصلے پر ہونے والی گرما گرم سیاسی جنگ میں جو بات پس منظر میں جاتی جارہی ہے،  وہی اس معاملے کا نہایت اہم نکتہ ہے اور وہ ہے جنرلوں کا کردار۔

حکمراں جماعت کی تمام توپوں کا رخ پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف ہے۔ دوسری طرف وہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے دفاعی پوزیشن اختیار کر کے، ایف آئی اے کے آزاد نہ ہونے کی دلیل پر کہہ رہے ہیں کہ انہیں اس کے ذریعے تحقیقات قبول نہیں۔

ساری توجہ اب اس بات پر مرکوز کی جاچکی ہے کہ کس سیاستدان نے کتنی رقم وصول کی تھی۔

علاوہ ازیں، جن لوگوں نے پاکستان میں جمہوریت کو سب سے بڑا اور حقیقی نقصان پہنچایا ہے، وہ بڑے سکون سے ایک طرف کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔

حقیقی معنوں میں دیکھیں تو اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے کا ہی پیدا کردہ ہے۔

اگرچہ اس فیصلے میں انہوں نے جنرلوں موردِ الزام ٹھہرانے میں تو کوئی شبہ نہیں چھوڑا لیکن احتسابی عمل کے لیے گیند حکومت کے کورٹ میں اچھال دی۔

اس جیسے ہائی پروفائل کیس میں، عدالت براہ راست احتساب کے نفاذ کا تعین کرکے از خود کسی کو بھی یہ ذمہ داری سونپ کر، خود پورے عمل کی نگرانی کرسکتی تھی۔

براہ راست تفتیشی افسران تعینات کرکے، ان کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے حیثیت کی طلبی، قومی اسمبلی کے اسپیکر کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیر اعظم کو ازخود نااہل قرار دیتے وقت تو یہ ذرا بھی نہیں ہچکچائے تھے۔

اور اب ، انہوں نے ابتدائی حکم نامہ میں بنا یہ وضاحت کیے کہ انہیں کیا کرنا ہوگا،  سادہ لفظوں میں حکومت سے صرف یہ کہا ہے کہ وہ جنرلوں کے خلاف کارروائی کے لیے 'ضروری اقدامات' کرے۔

سپریم کورٹ اور خود حکومت، دونوں طرف سے فوری اقدامات کے اس فقدان نے اُن تمام پاکستانیوں کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے جو ایک بار پھر ملک کو جمہوریت کے بغیر نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

اب تک ذہنوں میں دو ہزار دو کے ان انتخابات کی یاد تازہ ہے جب آئی ایس آئی پاکستان مسلم لیگ ق کی پشت پناہی کررہی تھی۔

سیکریٹری دفاع کا کہنا ہے کہ ایجنسی کے سیاسی سیل نے پانچ سال قبل اپنی سرگرمیاں بند کردی تھیں۔ مطلب کہ وہ ابھی حال تک متحرک تھا۔

حتیٰ کہ اب بھی ایسے چند مشتبہ گروپ اور سیاسی جماعتیں ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔

آنے والے انتخابات کے حوالے سے فوج کی سیاسی مداخلت کم واضح ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ اس میں کوئی حصہ نہیں لیں گے۔

نہ ہی ہم یہ بات جانتے کہ سپریم کورٹ اور حکومت، کب تک شرمندہ شرمندہ سے دور کھڑے رہ کران لوگوں کے خلاف کارروائی کا انتظار کریں گے کہ جنہوں نے ماضی کے انتخابی نتائج میں ہیر پھیر کی تھی۔

البتہ تب تک اس معاملے پر توجہ مرکوز کیے سیاستدان ایک دوسرے سے لڑائی ضرور لڑتے رہیں گے۔