Dawn News Television

شائع 16 نومبر 2012 03:41pm

صفورا کی صفورا کیا ہوئی

1974 میں جب میرا بڑا بھائی کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لینے گیا تو وہاں سے وہ جو بروشر لایا  تھا اسکے سرورق پے  لکھا تھا "شہر سے بارہ میل دور، ایک اور شہر"۔

آج شہر جامعہ کراچی سے بہت آگے بڑھ چکا ہے، صفورا چورنگی سے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے سپر ہائی وے کی جانب رینگ رہا ہے۔

کسی انسان کی جائے پیدایش کے لئے بلوچی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ وہاں اسکی ناف دفن ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بندے کو اپنی جنم بھومی سے بڑا پیار ہوتا ہے اور اسکے لئے وہ جگہ چھوڑنا بہت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دمے کی وجہ سے ڈاکٹر کے مشورے پر مجھے لیاری چھوڑ کر رہایش کے لئے شہر کے مضافات میں کسی نسبتاً کم آلودہ علاقے کا انتخاب کرنا پڑا تو میں نے صفورا چورنگی کو چنا۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں ایک منی لیاری آباد ہے۔ شہر کی اس قدیم اور گنجان آباد بستی کو چھوڑ کر آے کئی گھرانوں کی شکل میں۔

اور یہ بھی کہ صفورا میں صرف لیاری ہی نہیں (میرا آبائی ضلع) لاڑکانہ، لیّہ، لالہ موسیٰ، لورالائی اور لنڈی کوتل بھی موجود ہیںاور کراچی کا قدیم گوٹھ بھی۔ رات دن جاگنے والی صفورا چورنگی کے متعدد ہوٹلوں پر ہر وقت مختلف النوع لوگوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔

ایک میز سے "نی" کی گردان کرتا ہوا بلوچی زبان کا ایک عجیب لہجہ "گبولکی" سنائی دیتا ہے تو برابر کی میز پر کوہستان سے آے ہوئے مہمانوں کے ساتھ برفتوں کی ٹولی بیٹھی ہوئی ہوتی ہے۔ ساتھ لگے ہوۓ تخت پر سرائیکی مزدور کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔ انکے پڑوس میں "ش" کو "چھ" اور "چھ" کو "ش" کا تلفّظ دینے والے لاڑکانیوں کی کچہری جمی ہوتی ہے۔ انکے قریب بلوچستان کے موسیٰ کھل اور سلیمان کھل زور زور سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر ان کا شور تھوڑے فاصلے پر بیٹھے ہوئے رنگ برنگی شرٹس اور شارٹس پہنے ہوئے ان نوجوانوں کو بالکل ڈسٹرب نہیں کر رہا ہوتا جو اپنے تعلیمی معاملات اور باہر جانے کے امکانات کو ڈسکس کر رہے ہوتے ہیں اور انکی ہڑبونگ کو خاموشی سے سن رہے ہوتے ہیں۔ ریٹائرڈ بزرگوں کی ایک چوکڑی، بڑی تمیز اور تہذیب سے چاۓ کے سپ لیتے ہوئے حالت حاضرہ پر تبصرہ کرتی نظر آتی ہے۔

اس گہماگہمی میں چند کردار ممتاز نظر آتے ہیں۔ مثلا دبلا پتلا ہک ہوگن دکھنے والا وڈیرہ بلاول جوکھیو جو اپنے سامعین کو سوریه بادشاہ کے اور انگریز کے دور کے کراچی کے دیگر قصّے سنا رہا ہوتا ہے۔ سہراب فقیر جو اپنی وضع قطع سے مولوی نظر آتا ہے اور جسکے حلقہ احباب میں کراچی یونیورسٹی کا دانشور استاد رحمان گل پالاری بھی شامل ہے۔ پیپلز پارٹی کا ایک دیرینہ کارکن زے نون جو صدر آصف علی زرداری پر تبصرے میں اپنی ذاتی بپتا بھی شامل کر دیتا ہے۔ "میں منہ پر سچ کہہ دیتا ہوں، اس لئے مجھے کوئی پسند نہیں کرتا۔ پارٹی والے ہی نہیں، گھر والے بھی مجھ سے پریشان رہتے ہیں۔  مجھے بھی ان کی کوئی پرواہ نہیں۔  کتاب لئے اپنے کمرے میں پڑا رہتا ہوں۔"

ایک نجی اسکول کا استاد جو ہمیشہ اپنے ساتھ کتابوں اور پرانے اخباروں سے بھرا ایک بیگ لئے پھرتا ہے۔ اسکے بھائی اسکے حصّے کی جائداد بھی بیچ کر پتلی گلی سے کینیڈا نکل لئے یہ کہہ کر کہ اسے بعد میں بلا لیں گے اور اسکے حصّے میں آیا بےسود انتظار اور بےپناہ تنہائی۔

بے ہنگم داڑھی اور بالوں والا ایک پاگل جو اس شان بے اعتنائی سے یہاں منڈلاتا رہتا ہے کہ بھیڑ میں رہتے ہوئے بھی اس سے الگ لگتا ہے۔ شاید وہ پاگل ہی اسی لئے ہے کہ اردگرد کا نوٹس لینے اور بولنے کی اذیت سے آزاد ہو جائے۔

چوک کے اختتام پر ایک گوٹھ کی جانب جانے والی گلی کے نُکَڑ پر مشتاق ڈھولا کا مطب ہے۔ وہ رٹایئرڈ فوجی اور سند یافتہ حکیم ہے مگر اسکی دکان پر مریضوں کے لئے کوئی جگہ نہیں کیونکہ یہ تو سجناں دا ڈیرہ ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ڈھولا کسی ایجنسی کے لئے کام کرتا ہے اور مطب چلانے کے بہانے چوک پر آنے جانے والے لوگوں پر نگاہ رکھتا ہے۔

چوک اور اس سے متصل چھوٹے سے بازار میں سب سے کم نظر آنے والی جنس عورت ہے حالانکہ لفظ "صفورا گوٹھ" ظاہر کرتا ہے کہ اس علاقے کی بنیاد بننے والے گاؤں پر عورت کی ہی حکمرانی تھی۔

اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم آگے کی بجاے پیچھے جا رہے ہیں۔


Read Comments