فوٹو گوگل میپس --.

1974 میں جب میرا بڑا بھائی کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لینے گیا تو وہاں سے وہ جو بروشر لایا  تھا اسکے سرورق پے  لکھا تھا "شہر سے بارہ میل دور، ایک اور شہر"۔

آج شہر جامعہ کراچی سے بہت آگے بڑھ چکا ہے، صفورا چورنگی سے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے سپر ہائی وے کی جانب رینگ رہا ہے۔

کسی انسان کی جائے پیدایش کے لئے بلوچی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ وہاں اسکی ناف دفن ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بندے کو اپنی جنم بھومی سے بڑا پیار ہوتا ہے اور اسکے لئے وہ جگہ چھوڑنا بہت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دمے کی وجہ سے ڈاکٹر کے مشورے پر مجھے لیاری چھوڑ کر رہایش کے لئے شہر کے مضافات میں کسی نسبتاً کم آلودہ علاقے کا انتخاب کرنا پڑا تو میں نے صفورا چورنگی کو چنا۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں ایک منی لیاری آباد ہے۔ شہر کی اس قدیم اور گنجان آباد بستی کو چھوڑ کر آے کئی گھرانوں کی شکل میں۔

اور یہ بھی کہ صفورا میں صرف لیاری ہی نہیں (میرا آبائی ضلع) لاڑکانہ، لیّہ، لالہ موسیٰ، لورالائی اور لنڈی کوتل بھی موجود ہیںاور کراچی کا قدیم گوٹھ بھی۔ رات دن جاگنے والی صفورا چورنگی کے متعدد ہوٹلوں پر ہر وقت مختلف النوع لوگوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔

ایک میز سے "نی" کی گردان کرتا ہوا بلوچی زبان کا ایک عجیب لہجہ "گبولکی" سنائی دیتا ہے تو برابر کی میز پر کوہستان سے آے ہوئے مہمانوں کے ساتھ برفتوں کی ٹولی بیٹھی ہوئی ہوتی ہے۔ ساتھ لگے ہوۓ تخت پر سرائیکی مزدور کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔ انکے پڑوس میں "ش" کو "چھ" اور "چھ" کو "ش" کا تلفّظ دینے والے لاڑکانیوں کی کچہری جمی ہوتی ہے۔ انکے قریب بلوچستان کے موسیٰ کھل اور سلیمان کھل زور زور سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر ان کا شور تھوڑے فاصلے پر بیٹھے ہوئے رنگ برنگی شرٹس اور شارٹس پہنے ہوئے ان نوجوانوں کو بالکل ڈسٹرب نہیں کر رہا ہوتا جو اپنے تعلیمی معاملات اور باہر جانے کے امکانات کو ڈسکس کر رہے ہوتے ہیں اور انکی ہڑبونگ کو خاموشی سے سن رہے ہوتے ہیں۔ ریٹائرڈ بزرگوں کی ایک چوکڑی، بڑی تمیز اور تہذیب سے چاۓ کے سپ لیتے ہوئے حالت حاضرہ پر تبصرہ کرتی نظر آتی ہے۔

اس گہماگہمی میں چند کردار ممتاز نظر آتے ہیں۔ مثلا دبلا پتلا ہک ہوگن دکھنے والا وڈیرہ بلاول جوکھیو جو اپنے سامعین کو سوریه بادشاہ کے اور انگریز کے دور کے کراچی کے دیگر قصّے سنا رہا ہوتا ہے۔ سہراب فقیر جو اپنی وضع قطع سے مولوی نظر آتا ہے اور جسکے حلقہ احباب میں کراچی یونیورسٹی کا دانشور استاد رحمان گل پالاری بھی شامل ہے۔ پیپلز پارٹی کا ایک دیرینہ کارکن زے نون جو صدر آصف علی زرداری پر تبصرے میں اپنی ذاتی بپتا بھی شامل کر دیتا ہے۔ "میں منہ پر سچ کہہ دیتا ہوں، اس لئے مجھے کوئی پسند نہیں کرتا۔ پارٹی والے ہی نہیں، گھر والے بھی مجھ سے پریشان رہتے ہیں۔  مجھے بھی ان کی کوئی پرواہ نہیں۔  کتاب لئے اپنے کمرے میں پڑا رہتا ہوں۔"

ایک نجی اسکول کا استاد جو ہمیشہ اپنے ساتھ کتابوں اور پرانے اخباروں سے بھرا ایک بیگ لئے پھرتا ہے۔ اسکے بھائی اسکے حصّے کی جائداد بھی بیچ کر پتلی گلی سے کینیڈا نکل لئے یہ کہہ کر کہ اسے بعد میں بلا لیں گے اور اسکے حصّے میں آیا بےسود انتظار اور بےپناہ تنہائی۔

بے ہنگم داڑھی اور بالوں والا ایک پاگل جو اس شان بے اعتنائی سے یہاں منڈلاتا رہتا ہے کہ بھیڑ میں رہتے ہوئے بھی اس سے الگ لگتا ہے۔ شاید وہ پاگل ہی اسی لئے ہے کہ اردگرد کا نوٹس لینے اور بولنے کی اذیت سے آزاد ہو جائے۔

چوک کے اختتام پر ایک گوٹھ کی جانب جانے والی گلی کے نُکَڑ پر مشتاق ڈھولا کا مطب ہے۔ وہ رٹایئرڈ فوجی اور سند یافتہ حکیم ہے مگر اسکی دکان پر مریضوں کے لئے کوئی جگہ نہیں کیونکہ یہ تو سجناں دا ڈیرہ ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ڈھولا کسی ایجنسی کے لئے کام کرتا ہے اور مطب چلانے کے بہانے چوک پر آنے جانے والے لوگوں پر نگاہ رکھتا ہے۔

چوک اور اس سے متصل چھوٹے سے بازار میں سب سے کم نظر آنے والی جنس عورت ہے حالانکہ لفظ "صفورا گوٹھ" ظاہر کرتا ہے کہ اس علاقے کی بنیاد بننے والے گاؤں پر عورت کی ہی حکمرانی تھی۔

اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم آگے کی بجاے پیچھے جا رہے ہیں۔


عباس جلبانی میڈیا سے منسلک قلم کے ایک مزدور ہیں اور خود کو لکھاری کہلانے سے کتراتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

mukhtarazad Nov 17, 2012 07:41am
شاندار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لگے رہو کامریڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے تو تب ہی تنزلی کا سفر شروع کردیا تھا جب ظلمت کی ضیا ملک کے روشن چراغ کو سولی پر لٹکا کر، قبر میں دفنا کر، بھوکوں کو روٹی کی ضمانت دینے والے نظام سے جہاد پر آمادہ ہوئی اور وہ بھی ظلم کے نظام کی پشت پناہی سے جو منہ سے نوالہ چھین کر سیٹھ کی تجوری میں قید رکھنا چاہتا ہے۔ ظلمت کی ضیا پھیل رہی ہے۔ مائی صفورا تو شٹل کاک اوڑھ کر خلا کی وسعتیں ناپنے چلی گئی۔ انہیں پتا ہونا چاہیے کہ جہاں آج کراچی ہے، کبھی لاڑ کے اس خطے میں بیٹا ماں کی نسبت سے پہچانا جاتا تھا جیسے 'بابو سکینہ کا۔ یہ تھی ان ناخوانداؤں کی تعلیم کہ عورت کو اولاد کی نسبت پر مرد خوش تھا اور پُراعتماد بھی۔ یہا تو اب بس چلے تو عورت کے لیے برقعہ بھی ایسا بنوائیں جو ان وزیبل ہو۔ '
سلیم احسن Nov 17, 2012 08:03am
واہ ساییں، خوش رہو. روشنیوں کے اس شہر کی تاریکیوں میں کیسی دنیاییں آباد ہیں‌کسی کو تو خیال آیا جی ہمیں ان کی سیر کراہے. جہاں بالاول چورنگی کو خرکار چوربگی کہتے ہیں اس اندھیرے کے باسی ان ظلمتوں میں بھی جینے کا کویی ڈھنگ تو ڈھونڈ ہی لیتے ہیں. ہو سکے تو کھارادر اور میٹھا در کی کہانی بھی سنا ہی ڈالیے. خوش رہیں.
نادیہ خانم Nov 17, 2012 08:09am
ہماری ناف تو کہیں اور دفن ہے مگر دل کا پرندہ صرف اسی شہرِ کراچی کا مکین ہو کر رہ گیا. غم اگر ہے تو یہی کہ اس شہر بےوفا میں علاقوں کی جغرافیایی حدیں یوں طے کردی گیی ہیں کہ اب ایک طرف کے باسی کو دوسری طرف کا نہیں پتہ. کب وہ کراچی گھر لوٹے گا جس کی روح میں ہندوستان بھر اور پاکستان بھر کے پرندے چہچہاتے تھے اور ایک دوسرے سی مل کر خوش ہوتے تھے. ہمیں کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا:(
Imran khan Nov 17, 2012 08:11am
Kuchh khak naheen samjh aaya. Dawn ko genree gehree batain karnay ki beemari hay. Sirf saamnay ki baat samjh naheen aati.
muhammed amin Nov 17, 2012 10:42am
اردو ڈان پر آپ کی اگلی کچہری کا انتظار رہے گا۔
muhammed amin Nov 17, 2012 10:48am
اور۔۔۔۔پھر صفورا تو بیٹی ہی موکھی کی تھی۔۔۔موکھی جو پیاسوں کی پیاس مد سے بجھاتی تھی۔۔۔ اور موکھی کون تھی۔۔۔ناتر کی بیٹی۔۔۔ناتر جو مومل کے کاک محل کی راز آشنا تھی۔