1938 میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو انڈین نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے پانچ سال کے عرصے میں بہترین تحقیقی پر گولڈ میڈل دیا گیااور اسے جواہر لعل نہرو نے انہیں پہنایا۔
1940 نے انجمن ترقی اردو ، حیدرآباد نے ان کی اہم کتاب ،نظریہ اضافیت (تھیوری آف ریلیٹویٹی) شائع کی۔ یہ کتاب انہوں نے علامہ اقبال کی فرمائش پر تحریر کی تھی جو آئن سٹائن کے کام کو اردومیں پیش کرنے کے خواہشمند تھے لیکن افسوس کہ کتاب منظرِ عام پر آنے سے قبل ہی علامہ اقبال وفات پاگئے تھے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی علامہ اقبال کے کلام کے اسکالر بھی تھے۔ 1974 میں انہوں نے ' اقبال کے تصورِ زمان و مکان' ایک کتاب مرتب کی جسے بزمِ اقبال نے شائع کیا۔
ایک عظیم سائنسدان اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی عربی ، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں کے ماہر بھی تھے۔ انگریزی کلاسک کا بڑا حصہ ان کے زیرِ مطالعہ تھا۔ ساتھ ہی وہ غالب، اقبال ، حافظ اور شیرازی کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو انڈین نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے پانچ سال کے عرصے میں بہترین تحقیقی پر گولڈ میڈل دیا گیااور اسے جواہر لعل نہرو نے انہیں پہنایا۔
1950 میں وہ حکومتِ ہند کی جانب سے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے کراچی کی ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان آئے۔ اس موقع پر انہیں پاکستان کی تین مختلف یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر شپ کی آفر ہوئی۔ سردار عبدالرب نشتر نے انہیں آزاد کشمیر یونیورسٹی کی صدارت سنبھالنے کو کہا، وزیرِ تعلیم فضل الرحمان نے کہا کہ وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن جائیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ صرف کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان آئے ہیں اور واپس ہندوستان جاکر علیگڑھ یونیورسٹی میں اپنی تحقیقات جاری رکھنا چاہیں گے۔ اس موقع پر اس وقت صوبہ سرحد کے وزیرِ اعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے، جو اس وقت کراچی میں تھے، انہیں خیبر پاس کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ جب رضی الدین صدیقی پشاور پہنچے تو انہیں دو کاغذات موصول ہوئے ۔ ایک اس ٹیلی گرام کی نقل تھی جس سردار
قیوم نے ہندوستانی وزیرِ اعظم کو کہا تھا کہ اب ڈاکٹر رضی الدین پاکستان میں رہیں گے اور ان کے اہلِ خانہ کو پاکستان بھجوادیا جائے۔ دوسرے خط میں انہیں نئی قائم شدہ پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ریاضی کا سربراہ بنانے کے احکامات تھے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی سے مشورہ کئے بغیر خان عبدالقیوم خان کی اس جلد بازی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ہندوستان میں اُن کی جائیداد اور سب سے بڑھ کر ان کا قیمتی کتب خانہ ضبط کرلیا گیا ۔ اس لائبریری کے جانے کا انہیں ہمیشہ افسوس رہا۔
1960 میں انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنادیا گیا اور انہوں نے اس کا معیار بلند کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ 1964 میں صدر ایوب خان نے انہیں اسلام آباد میں مجوزہ ایک نئی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنایا جو آج قائدِ اعظم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے۔ اس یونیورسٹی کے لئے وہ فرانس ، امریکہ ، برطانیہ اور جرمنی گئے ، وہاں کی جامعات کو قریب سے دیکھا، اہلِ علم سے گفتگو کی تاکہ پاکستان میں بین الاقوامی معیار کی ایک شاندار یونیورسٹی تعمیر کی جاسکے۔ انہوں نے اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رالف ٹیلر اور ورنر ہائزن برگ سے بھی تبادلہ خیال کیا اور یونیورسٹی کیلئے ایک روڈ میپ تشکیل دیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایم آئی ٹی ، کیلٹیک اور رائل سوسائٹی سے بھی رابطے برقرار رکھے۔
انہوں نے اپنے تعلقات اور بین الاقوامی نیٹ ورک کی مدد سے قائدِ اعظم یونیورسٹی میں اعلیٰ پائے کی فیکلٹیز تعمیر کیں۔ ساتھ ہیں انہوں نے اپنی شخصیت کے بل بوتے پر بیرونِ ملک مقیم مشہور پاکستانی سائنسدانوں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان آئیں اور اپنے علم سے اسے منور کریں۔
افسوس کہ 1971 میں جہاں ملکی یونیورسٹیز میں تبدیلیاں ہوئیں وہیں، قائدِ اعظم یونیورسٹی میں بھی سیاسی دخل اندازی بڑھی۔ یونیورسٹی میں استاد کیلئے پی ایچ ڈی کی بجائے صرف ماسٹرز کی حد رکھی گئی جس سے اس کے معیار کو شدید دھچکا پہنچا۔ اس سے یونیورسٹی کا معیار بہت تیزی سے گرنے لگا۔
ڈاکٹر صدیقی یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتے رہے اور ان کا دل ٹوٹ کر رہ گیا۔ وہ غربت ، بیماری اور جہالت کا صرف ایک ہی علاج جانتے تھے اور وہ ہے تعلیم۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ملک میں تعلیم کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے.
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آج اسلام آباد میں شارعِ دستور پر واقع پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے قیام میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ 1961 سے 1972 تک اس کے صدر بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ انڈین اکیڈمی آف سائنسز کے نائب صدر بھی رہے جبکہ سر سی وی رامن اس کے صدر تھے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی علامہ اقبال کے کلام کے اسکالر بھی تھے۔ 1974 میں انہوں نے ' اقبال کے تصورِ زمان و مکان' ایک کتاب مرتب کی جسے بزمِ اقبال نے شائع کیا۔
1947 سے 1949 تک و ہ انڈین میتھیمیٹکل سوسائٹی کے صدر رہے اور یونیسکو کی جانب سے سائنس کے کنسلٹنٹ بھی مقرر ہوئے۔ انیس سو پچھتر میں انہیں انٹرنیشنل کانگریس آف میتھمیٹکل سوسائٹی کا جنرل پریذیڈنٹ منتخب کیا گیاجو ایک قابلِ فخر اعزاز ہے۔
1952 میں ڈاکٹر صدیقی کوانٹرنیشنل میتھمیٹکل یونین کی نیشنل کمیٹی کا صدر بنایا گیا اور مسلسل بیس سال تک یہ اعزاز ان کے پاس رہا۔
1960 میں انہیں ستارہ امتیاز دیا گیا اور 1981 میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔ انیس سو باسٹھ میں جرمنی میں انہیں گرانڈ کراس آف دی آرڈر آف میرٹ سے نوازا گیا۔
دو جنوری ، 1998 کی صبح ان کا انتقال ہوگیا۔