امریکہ ایک چاند گاڑی اتار کر اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ ملک سمجھتا ہے حالانکہ اگر اسے ترقی دیکھنی ہے تو کبھی پاکستان آکر دیکھے خاص طور پر کراچی میں جہاں ہر سڑک ہر گلی میں چاند گاڑی گھومتی پھرتی نظر آرہی ہیں۔ جی ہاں یہ چاند گاڑیاں جنہیں ہم حرف عام میں چن چی رکشہ کہتے ہیں۔ ان چن چی رکشوں نے جہاں غریب عوام کیلئے سفری سہولیات مہیا کی ہیں وہیں کراچی کا حسن بھی دوبالا کردیا ہے۔
کراچی کی سڑکوں پر ان حسین اور خوبصورت رنگ برنگے چن چی رکشوں کو لہراتے چکراتے اور بل کھاتے ہوئے دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور بے اختیار ان رکشوں کے موجد اور انہیں کراچی کی سڑکوں پر لانے والے ارباب اختیار کیلئے دعا کرنے لگتا ہے اور کیوں نا کرے۔ ہم نے ساری زندگی کراچی میں بسوں اور منی بسوں کے دھکے کھائے ہیں اور انکا زہر آلود دھواں پیا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ایک اسٹاپ پر گھنٹوں کھڑی بس میں صبر کا گھونٹ پیا ہے۔
خدا ہماری شہری حکومت کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا کرے کہ انھوں نے ان منحوس بسوں کا ایسا متبادل پیش کیا ہے کہ دن بھر کے تھکے مارے آفس والے، کالج اسکول کے طلبا و طالبات اور سودا سلف خریدنے والی خواتین۔۔۔۔ خراماں خراماں تازہ ہوا کھاتی ہوئی چن چی رکشوں میں بیٹھ کر اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتی ہیں۔
عوام ان چن چی رکشوں سے کتنا خوش ہیں یہ جاننے کیلئے آئیے آپ کو ان میں سفر کرنے والی ایک خاتون اور اسکے ڈرائیور سے ملواتے ہیں۔
راقم: اور سناو دوست خوش ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ پولیس والے تنگ تو نہیں کرتے؟
(ڈرائیور کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آگئی)
ڈرائیور: پولیس والوں کو بھی اس شہر میں رہنا ہے بھائی جان۔ اور وہ بھی۔۔۔۔ زندہ!
راقم: کچھ لوگوں کو شکایت ہے تم لوگوں کو گاڑی چلانی نہیں آتی۔۔۔۔۔ جس وجہ سے حادثات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
ڈرائیور: یہ لوگوں کی نہیں تم جیسے بڑی بڑی گاڑی والوں کی شکایت ہے۔
(آگے بیٹھی ہوئی خاتون مسافر اچانک بیچ میں بول پڑتی ہیں)
خاتون: اور نہیں تو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ گاڑی والے غریبوں اور ان کی سواری کو روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ انسانوں کو تو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔
ڈرائیور: چن چی غریبوں کی سواری ہے صاحب اسلئے کھلتی ہے لوگوں کو۔
راقم: اچھا تمہارے پاس لائسنس ہے؟
(ڈرائیور گھوم کر مجھے گھورتا ہے)
ڈرائیور: تم گاڑی چلاتے ہو؟
راقم: ہاں!
ڈرائیور: تمہارے پاس لائسنس ہے؟
راقم: (شرمندگی اور ندامت کیساتھ) وہ۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ نہیں لائسنس تو میرے پاس بھی نہیں ہے۔
خاتون: آئے ہائے! تو کیا ان مردود بس والوں کے پاس ہوتا ہے لائسنس؟
راقم: (خاتون سے) آپ بہت خوش لگ رہی ہیں چن چی رکشوں سے؟
خاتون: کیوں نا خوش ہوں۔ زندگی آسان ہوگئی ہے ہماری۔ دس روپے میں منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ نا کھڑے ہونے کی تکلیف نا انتظار کرنے کا دکھ! نا مردوں کی بد تمیزی اور نا جیب کتروں کا ڈر!
ڈرائیور: (بیچ روڈ پہ رکشہ لہراتے ہوئے بڑی ترنگ میں کہتا ہے)
بھائی جان ایک وقت آئیگا جب روڈوں پہ صرف چن چی چلا کریگا۔۔۔۔۔ نیلے نیلے۔۔۔۔پیلے پیلے۔۔۔۔۔کالے ہرے۔۔۔۔۔ ہوا میں اڑتے چن چی!
(چن چی ڈرائیور اپنے خواب میں کھو کر سامنے سگنل پر کھڑی کار کو دیکھ نہیں پاتا اور دھائیں سے چن چی گاڑی سے ٹکرا دیتا ہے)
دنیا کچھ بھی کہے چن چی رکشوں نے کراچی شہر کا نقشہ بدل دیا ہے۔ یہ کس قانون کے تحت سڑکوں پر آئے ہیں، کون لوگ ان سے بھتہ لیتے ہیں، انکے ڈرائیوروں کے پاس لائسنس ہوتا ہے یا نہیں۔۔۔۔۔ ان سوالوں سے بالائے نظر غریب عوام ان سے خوش ہے۔ اور کیوں نا خوش ہو۔ سڑکوں پر ٹریفک ہو یا نا ہو، بسیں چل رہی ہوں نا چلیں، چن چی رکشہ چلتا رہتا ہے۔
ایک بات اور بھی ہے کہتے ہوئے تھوڑا ڈر تو لگتا ہے لیکن حقیقت ہے، ہڑتالوں کے دوران بس جل جائے گی، ٹرک جل جائیں گے حتیٰ کہ رکشہ اور ٹیکسی بھی جل جاتے ہیں، پر کیا آپ نے کبھی کسی چن چی رکشے کو جلا ہوا دیکھا ہے؟ اس سوال کا جواب تو شاید حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں ہے۔