یہ نئے اتحاد بننے اور پارٹیاں چھوڑنے کا موسم ہے۔ سیاسی پارٹیاں آنے والے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ وفاداریاں خریدنا معمول کا کھیل ہے، سیاسی وفاداریاں راتوں رات بدل جاتی ہیں۔ شرم کا احساس ختم ہو چکا ہے، سیاسی پارٹیاں لوٹوں کو بڑے دھوم دھام سے قبول کر رہی ہیں اور یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے۔
اپنے انتخابی منشور اور عوام اور ملک کو درپیش خوفناک سیاسی و معاشی مسائل کو پسِ پشت ڈال کر، سیاسی جماعتیں سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں تاکہ انتخابی معرکہ جیتنے والے مؤثر اور طاقتور امیدواروں کو اپنے ساتھ ملا سکیں۔
ان طاقتور لوگوں کے لئے اپنے خاندان اور برادری کے مفادات کا تحفظ بھی بہت اہم ہے۔ وہ یقیناً اُ س طرف جائیں گے جہاں زیادہ بولی لگے گی یا جہاں بعد میں شاندار مواقع ملنے کا امکان ہو۔ طاقت کے کھیل میں کوئی سیاسی نظریہ اہمیت نہیں رکھتا۔
اسی لئے تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ مخدوم احمد محمود نےاپنے رشتہ دار پیر پگارا کی پی ایم ایل (ف) کے ساتھ اپنی پرانی وابستگی چھوڑ کر پنجاب کا گورنر بننے کی صدر زرداری کی پیشکش قبول کر لی۔ سیانے صدر صاحب کی اس چال کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ پیر پگاڑا کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جائے جو نوازشریف کے ساتھ اتحاد بنا کر سندھ میں پیپلز پارٹی کو کمزور کر رہے تھے بلکہ اُن کا مقصد یہ بھی تھا کہ اپنی پارٹی کی انتخابی حیثیت کو جنوبی پنجاب میں مضبوط کر لیا جائے۔
چند ہی ہفتوں بعد گورنر صاحب نے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کر تے ہوئے اپنے ایک اور عزیز اور سابقہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی موجودگی میں اپنے تین بیٹوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اُن کا ایک بیٹا قومی اسمبلی اور دوسرا پنجاب اسمبلی کا رکن ہے۔ یہ فیصلہ ملک اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں بتایا جاتا ہے۔
وفاداری بدلنے کا ایک اور دلچسپ واقعہ جو پچھلے ہفتے میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہا وہ تھا پی ایم ایل (ن) کے رکن قومی اسمبلی سیف الدین کھوسہ کا پیپلز پارٹی میں شامل ہونا۔ سیف الدین کھوسہ وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر اعلیٰ ذولفقار کھوسہ کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے وفاداری بدلنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی پارٹی پر اپنے کارکنان کو دھوکہ دینے کا الزام لگایا۔ یہ اپنی جگہ دلچسپ بات ہے کہ انہیں یہ احساس ہونے میں اتنا طویل عرصہ لگا اور انتخابات کے اتنے قریب آکر انہیں یہ احساس ہوا۔ یہ یقیناً مقامی سیاست کی کھینچا تانی کے اثرات ہیں نہ کہ کوئی اصولی موقف۔
وفاداریاں بدلنے کے اس عمل سے نہ صرف پیپلز پارٹی کو فائدہ ہوا ہے، بلکہ پی ایم ایل (ن) اور کچھ دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی اپنے اصولی موقف چھوڑ کر لوٹوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں۔
وفاداریاں بدلنے کے واقعات ہماری سیاست میں نئے نہیں ہیں۔ ایک بار یوں بھی ہوا کہ پنجاب اسمبلی کے حکومتی بنچوں پر موجود تمام ارکان نے 1993 میں وفاداریاں بدل لیں اور محض ایک ہفتہ کے بعد صورت حال بدلنے پر واپس حکومتی بنچوں پر براجمان ہو گئے۔ اسی طرح 1999 میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پی ایم ایل (ن) کے کئی ارکان فوجی سرپرستی میں بننے والی قاف لیگ میں شامل ہو گئے۔
عام انتخابات سے پہلے سیاسی وفاداریاں بدلنے کا یہ تماشا جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے انتخابات ہوں گے کہ جن کے نتیجے میں ایک منتخب حکومت اقتدار دوسری منتخب حکومت کے حوالے کرے گی۔
یہ یقیناً جمہوریت کے لئے بہت اہم موقع ہے کہ ایک منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کیونکہ ذولفقار علی بھٹو کی حکومت نے بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی تھی تاہم انتخابات کے ساتھ ہی فوج نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔
تاہم یہ بات بہت حوصلہ افزاء ہے کہ تمام تر خوفناک پیشن گوئیوں، سازشی نظریات اور اندرونی کھینچا تانی کے باوجود نظام قائم و دائم ہے۔ اس سے امید پیدا ہو چلی ہے کہ جمہوریت اپنی تمام تر کمزوریوں اور مسائل کے باوجود ملک میں جڑ پکڑ رہی ہے۔ اگر نظام چند طاقتور خاندانوں اور مفاد پرست عناصر کے نرغے میں رہا تو عوام کا تبدیلی کے لئے انتخابات اور سیاسی عمل پر اعتماد کم ہو جائے گا۔
آنے والے انتخابات اور پر امن انتقالِ اقتدار جڑ پکڑتی جمہوریت کے ارتقاء کے لئے بہت اہم ہیں۔ چنانچہ نہ صرف انتخابات کا آزادانہ اور منصفانہ ہونا بہت ضروری ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ انتخابات ایک ایسی جمہوریت کو مضبوط کرنے کا باعث بنیں جس میں ساری قوم جمہوری نظام کاحصہ بن جائے، نہ کہ ایک ایسے نظام کو مضبوط کرنے کا آلہ بن جائیں جو لوٹ کھسوٹ اور موروثیت پر مبنی سیاسی نظام ہو۔
بے شک انتخابات جمہوری عمل کا لازمی جزو ہیں تاہم یہ جمہوریت کا حتمی مقصد نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ نظام سے لوگوں کے مسائل حل ہوں اور قانون کی عملداری قائم ہو۔ ایک مؤثر اور مضبوط جمہوریت کے لئے ضروری ہے کہ اُس میں ہر کوئی جوابدہ ہو اور احتساب کا ایک مضبوط نظام موجود ہو۔
بد قسمتی سے یہ سب کچھ نہیں ہے جس کی وجہ سے جمہوری نظام کمزور ہے اور خطرات کا شکار ہے۔ لوگوں کے روزمرہ مسائل کا حل نہ ہونا، اعلیٰ ترین حکام پر بد عنوانی کے الزامات کی بھرمار، امن و امان کی مخدوش حالت اور معاشی بدحالی جیسی چیزیں غیر یقینی صورت حال پیدا کر رہی ہیں۔ ابھی بھی یہ خدشہ موجود ہے کہ اگر معاشی بحرانی شدت اختیار کر گیا یا امن و امان کی صورت حال مکمل طور پر خراب ہو گئی تو جمہوری عمل رک سکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اٹھارہویں اور بیسیویں آئینی ترامیم وفاقی پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنے اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کریں گی۔ تاہم محض یہی اقدامات شمولیت پر مبنی جمہوریت کے قیام کے لئے کافی نہیں ہیں۔ سیاسی نظام پر اب بھی گنے چنے طاقتور لوگوں کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے شمولیت پر مبنی جمہوریت ترقی نہیں کر پارہی۔
موروثی سیاست ملک کے سیاسی کلچر پر چھائی ہوئی ہے۔ ایسی صورت حال میں انتخابات محض طاقت کے ذرائع پر قبضہ کرنے کا ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔ عوام کے لئے سیاسی عمل کو زیادہ قابل اعتبار بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سیاست کی دنیاء میں امراء/اشرافیہ کی اہمیت ختم ہو۔
یہ بات درست ہو گی کہ ملک کے لئے نمائندہ جمہوریت ہی واحد راستہ ہے چاہے تبدیلی کا یہ عمل کتنا ہی سست رو اور تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔ تاہم ایک ایسا نظام جس پر چند امراء کا قبضہ ہو اور عوام کی بہت بڑی تعداد کی امنگوں سے لاتعلق ہو تو وہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔
پاکستانی معاشرہ بہت بڑی سماجی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف درمیانے طبقے کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف اب ملکی آبادی کا بہت بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس صورت حال نے انقلابی سیاسی تبدیلی کے لئے موزوں ماحول پیدا کر دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عام انتخابات سے یہ تبدیلی ممکن ہو پاتی ہے کہ نہیں؟
ترجمہ: سفیرللہ خان