نقطہ نظر

عقل محو تماشہ ہے کہ

آج امیرالمومنین کو پردہ فرمائے ہوئے کئی عشرے گزر چکے ہیں، لیکن ان کا فیضِ عام آج بھی اُسی طرح جاری وساری ہے

ملک کے کئی شہروں میں خودکش دھماکوں اور قتل و غارت گری کا جو خوفناک اور ہلاکت خیز سلسلہ آج کل جا ری ہے، اس کا آغاز گیارہ سالہ دورِ سیاہ کے اواخر میں لاہور سے ہوا تھا۔

اس کے بعد کراچی کے مرکز صدر میں مختلف مقامات پر ہونے والے دھماکوں میں بے گناہ افرد کی ہلاکتوں کے بعد خود ساختہ امیر المومنین کراچی تشریف لائے تو صحافیوں نے انہیں گھیر لیا۔ لیکن پے درپے سوالوں کے تابڑ توڑ حملوں سے وہ ذرا بھی نہ گھبرائے، بلکہ نہایت شاطرانہ و مکارانہ معصومیت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ ‘حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ وہ ان دھماکوں کو روک سکے، آج چار دھماکے ہوئے ہیں، کل ایک سو چوّن ہوں گے، ابھی تو شروعات ہیں، ہمیں ان کے لیے تیار رہنا چاہیے۔’

ما شاء اللہ ! کیا نگاہِ بصیرت تھی حضرت کی ....!

ہمیں تو یہ بھی اکثر گمان گزرتا ہے کہ حضرت والا  کو کامل یقین تھا کہ وہ جو کچھ بو رہے ہیں، اس سے کس قسم کے پودے نکلیں گے؟  کس طرح کے درخت بنیں گے؟ اور کیسا زہرناک پھل لائیں گے؟

آج خودساختہ امیرالمومنین کو پردہ فرما ہوئے گو کہ کئی عشرے گزر چکے ہیں لیکن ان کا فیضِ عام آج بھی اُسی طرح جاری وساری ہے، جس طرح اُن کی جلوہ افروزی کے زمانے میں جاری وساری تھا۔

حضرت والا سے  فیض یافتہ اکثر سیاسی زعماء اور اُن کی کرامات و برکات کے ‘طفیل’ پروان چڑھنے والی بہت سی مذہبی جماعتوں کے بیشتر اکابرین قاتلانہ  حملوں اور بم دھماکوں کے بعد بجائے اس کے کہ بے گناہ اور معصوم ہلاکتوں پر لرزۂ براندام ہوں، زندہ بچ جانے والے زخمیوں کے علاج معالجہ کا بندوبست کریں، جن میں سے بہت سے تو اِن حملوں کی وجہ سے ساری عمر کے لیے جسمانی ہی نہیں نفسیاتی طور پر بھی معذور ہوجاتے ہیں!

اور کچھ نہیں کرتے تو کم ازکم اُن وحشی درندوں کی کھلے الفاظ میں مذمت ہی کرڈالیں جو پاکستان کو صومالیہ، سوڈان اور افغانستان کے درجے کی کسی ریاست میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں۔

اُس پاکستان کو ....جی ہاں اُس پاکستان کو جس کی کبھی ایسی اُٹھان تھی کہ ایشیا کے بہت سے ممالک جو آج ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیے جاتے ہیں، پاکستان سے کہیں پیچھے تھے۔ لیکن اپنے مربّی و مشفّی کے رنگ میں رنگے ہوئے یہ لوگ یہی راگ الاپتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں پرائی جنگ سے خود کو الگ کرنا ہوگا۔

عقل سر بہ گریباں ہے۔ یہ کون سا اپنا پن ہے کہ یہ ہمارے اپنے، عام لوگوں کو مسجدوں، امام بارگاہوں، مزاروں، بازاروں اور دیگر پبلک مقامات پر حملہ کرکے ہلاک کر رہے ہیں؟ یہ کیسی جنگ ہے جس میں ہمیں اپنے مدمقابل دشمن کو دشمن کہنے کی اجازت نہیں؟

جبکہ آج سے ڈھائی عشرے قبل ان کے سیاسی مرشد اور مربّی و مشفّی نے جب امریکی اشارے پر افغان پالیسی تشکیل دی تھی اور دلفریب مذہبی نعروں کا سہارا لے اُسے “جہاد” کا عنوان دیا تھا تو اُس وقت یہ سیاسی و مذہبی جماعتیں غیر مشروط طور پر امریکہ کے پٹّھو صدر  کی پشت پناہ بلکہ مضبوط دست و بازو کیوں بنی ہوئی تھیں؟

اس وقت کیوں نہیں کہا گیا کہ یہ دو سپر پاورز کے مفادات کی جنگ ہے، امریکہ یونی پولر ورلڈ کے قیام کے لیے ہمیں استعمال کررہا ہے؟

آج امریکہ کی مخالفت کرنے والے علمائے دین، مفتیان عظام، فقیہان کرام اور مشائخ طریقت میں سے کسی نے اُس وقت یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ اگر یہ اسلام کی جنگ ہے تو پھر امریکہ جیسی  دشمنِ اسلام  طاقت صمیمِ قلب کے ساتھ اس جنگ میں کیوں ہمارا ساتھ دے رہی ہے؟

گیارہ سالہ دورِ سیاہ  میں صورتحال یہ تھی کہ افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے مجاہدین  کے دستے پاکستان سے روانہ ہوتے تھے، ان کے لیے امریکہ سے ملنے والے اسلحے کے ذخائر اور ہیڈ کوارٹرز پاکستان کے شہروں میں قائم تھے۔

اس جنگ کے نتیجے میں ایک غیر جانبدار اندازے کے مطابق ایک کروڑ کے لگ بھگ افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوگئے۔ اس قدر بڑی تعداد میں آبادی کے انخلاء پر گھبرانے اور ان کی سرگرمیوں کو محدودکرنے کے بجائے، اُن کی آمد پر دیدہ و دل فرشِ راہ کر دیے گئے۔

کیوں؟

اس لیے کہ عالمی برادری کی جانب سے امداد کے نام پر ڈالروں کی بارش ہونے لگی تھی؟

کیا ڈالر بٹورنے کے لیے ہی حقائق سے صریح چشم پوشی اختیار کی گئی تھی؟

اسی دوران افغان باشندے ملک کے تمام ہی بڑے شہروں میں عام پاکستانیوں کے ساتھ خلط ملط ہوکر آباد ہوگئے، انہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوالیے، جائیدادیں خرید لیں اور بعض تجزیہ نگاروں کا تو دعویٰ ہے کہ مبینہ طور پر منشیات کی آمدنی کا پیسہ کاروبار و تجارت کے مختلف شعبوں میں لگا کر ان پر اپنی برادری کی اجارہ داری قائم کرلی۔ اب حال یہ ہے کہ عام پاکستانی چھوٹے چھوٹے کاروبار میں اس قدر سرمایہ کاری کر ہی نہیں سکتا۔ اکثر مذہبی، سیاسی اور بعض لسانی تنظیموں کی جانب سے ایسے تمام معاملات کی پردہ پوشی نہایت چالاکی اور ہشیاری کے ساتھ کی جاتی رہی ہے۔

قتل و غارت گری، بم دھماکوں اور خودکش حملوں کا سلسلہ دراصل معتدل مزاج، معقول سوچ، تعلیمیافتہ، سوشل، ایماندار، اعلیٰ ظرف افراد پر مشتمل اُس طبقے کو خوفزدہ کرنے کا ایک نہایت کامیاب حربہ بھی ہے، جس میں اب گنے چنے لوگ ہی باقی رہ گئے ہیں۔

اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے اور بعض مذہبی و سیاسی اکابرین نے امریکہ دشمنی میں شدت پسندوں کی حمایت کی جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے، اسے ترک نہ کیا تو جلد یا بدیر ملک پر انہی شدت پسندوں کی رِٹ بھی قائم ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا، شاید سقوط مشرقی پاکستان سے بھی بڑا۔

ممکن ہے اس کے بعد اتحادی افواج کو ملک میں فوجی مستقر بنانے کے لیے جبکہ دہشت پسندوں کو پاکستان میں اپنا ایسا کوئی مرکز بنانے کے لیے بہانہ مل جائے، جس کے ذریعے وہ دنیا پر اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور جس کے لیے وہ مستقل پَر تول رہے ہیں۔ پھر خدانخواستہ ملک بھر میں خانہ جنگی کا ایسا سلسلہ نہ شروع ہوجائے کہ جسے دیکھ کر شاید افغانستان و عراق کی تباہیاں بھی حقیر محسوس ہوں، الامان الحفیظ۔

محض مسلک اور ملتے جلتے عقائد کی بناء پر اس ہلاکت خیز گروہوں کی دن بہ دن بڑھتی ہوئی ہلاکت خیزیوں پر پردے ڈالنے اور عوام میں ان کے لیے مخالفانہ جذبات کو روکنے کی احمقانہ، ظالمانہ اور ملکی قانون کی رو سے دیکھا جائے تو باغیانہ روش ترک نہیں کی گئی تو یہ ہلاکت خیز گروہ اپنی کارروائیوں میں مزید بے باک اور نڈر ہوتے جائیں گے۔

جب دہشت پسند گروہوں کے ترجمان اپنے بیان میں تسلیم کرلیتے ہیں کہ بم دھماکے، قتل وغارت گری یا خود کش حملے  کی کارروائی ان کی طرف سے کی گئی تھی تو  عقل محو تماشہ ہے کہ خود ساختہ امیرالمومنین کے بعض فیض یافتہ اور گدّی نشین یہ بیانات داغ کر لوگوں کو کیوں دھوکہ دیتے  ہیں کہ اس حملے میں بھارتی خفیہ ایجنسی  را  ملوث ہے  یا امریکی سی آئی اے کا ان واقعات میں ہاتھ ہے۔

حیرت انگیر امر یہ ہے کہ ہلاکت خیز گروہوں کے لیے ان کے دلوں میں ہمدردی کے جو جذبات موجزن ہیں اُن کا اظہار بھی وہ بلا جھجک و شرم کیے چلے جارہے ہیں۔

جبکہ خود ان کے ہی بیان کے مطابق ان ہلاکت خیز گروہوں کے لوگ جب را کے ایجنٹ ہوئے تو پھر یہ سیاسی و مذہبی اکابرین ایسے ملک دشمن گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالفت پر کیوں کمربستہ ہیں؟

خود ساختہ امیرالمومنین کے بعض فیض یافتہ اور گدی نشین اور ان کے متاثرین دہشت گردانہ کارروائیوں کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیتے ہیں، ایک جملہ تو آج کل زبان زد عام ہے کہ ‘یہ سب یہودی سازش ہے’ یا  ‘یہ سب امریکہ کروارہا ہے’۔ جب ان لوگوں کو یقین ہے کہ یہ دہشت گردانہ کارروائیاں یہودی سازش اور امریکی پلان کا حصہ ہیں تو اس سازش اور پلان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے گروہوں کے لیے ان کے قلب میں اس قدر محبت بھرے جذبات کیوں موجزن  ہیں؟


جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔