اور پھر ہزارہ
’’بروری روڈ جانا ہے، دوست کو لینے آیا ہوں۔ ‘‘ آج یہاں قانون نہ نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے آگے ہزارہ رضا کار خود کھڑے تھے۔ ہر آنے جانے والے کو روک کہ تسلی کرتے اور پھر راستہ دیتے ۔ تھوڑی دور ایک ہزارہ نظر آیا تو میں نے اسے ساتھ بٹھا لیا۔ بروری روڈ کا راستہ سپنئی روڈ سے ہو کر جاتا ہے ۔ یہیں وہ چوک ہے جہاں زیادہ تر ہزارہ کو مارا جاتا ہے۔ نام تو اس کا اخوند چوک ہے مگر اس کو خونی چوک بھی پکارتے ہیں۔ گفتگو کا سلسلہ جب اس مرحلے پہ پہنچا کہ اب کیا کیا جائے تو نوجوان نے جواب دیا, 'اگر ہم علمدار روڈ اور بروری روڈ سے پیچھے ہٹ کر گھروں میں مقید ہو جائیں تو یہ ہمیں گھر آ کر مارنا شروع کر دیں گے۔' معلوم ہوا علمدار روڈ اور بروری روڈ جگہیں نہیں کسی جنگ کے مورچے ہیں۔ جائے حادثہ پہ پہنچنا خاصا مشکل تھا۔ رضاکار کسی غیر ہزارہ کو اندر نہیں آنے دیتے تھے اور لکیر پیٹتے اہلکار اسے باہر نہیں جانے دیتے تھے۔ شیشوں سے اندھی کھڑکیوں اور دروازوں سے یتیم دہلیزوں کو دیکھتے دیکھتے کرونی روڈ پہنچے تو داؤد ملا۔ دھماکے کی جگہ سے اس کا گھر تقریبا سو فٹ دور تھا۔ 'علمدار روڈ کے دھرنے کے بعد میں نے محسوس کیا تھا کہ اب آہستہ آہستہ لوگوں کے چہرے پہ رونق لوٹنا شروع ہو گئی ہے۔ ہزارہ لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی کچھ کم ہو گئی تھی اور ملک بھر میں شیعہ تنظیموں کے احتجاج نے جان میں جان ڈال دی تھی۔۔۔مگر کل پھر یہ حادثہ ہو گیا۔' دالان میں ہر طرف شیشے بکھرے تھے۔ ہزارہ گھروں میں کمروں سے باہر ایک چھوٹی سی راہداری چھوڑتے ہیں، جسے شیشے لگا کر بند کیا جاتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں یہ شیشے قندھاری ہواؤں کو روکتے ہیں اور سورج کی روشنی کو راستہ دیتے ہیں ۔ تقریبا ہر گھر میں یہ شیشوں والی رااہداری پائی جاتی ہے سو سب جگہ کافی کچھ چھناکے سے ٹوٹا تھا اور سب لوگ کرچیوں پہ چل رہے تھے۔ دھماکہ کی شدت سے شیشے کے ٹکڑے دیوار میں کھب چکے تھے اور صحن میں لگی بیلیں جو بانسوں کے سہارے چھت بنتی تھیں، ادھڑی پڑی تھیں۔ ایسا لگتا تھا سال بھر کی خزاں اور سال بھر کی آندھی ایک پل میں آگئی۔