رئیسانی حکومت کے پانچ سال
10 جنوری 2013 کو علمدار روڑ میں ہونے والے بم دھماکوں اور اس کے بعد ہونے والے عوامی احتجاج کے نتیجے میں جب 14 جنوری کو بلوچستان کی رئیسانی حکومت اسکی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ برخاست کر دی گئی تو اسکے پانچ سال مکمل ہونے میں محض دو ہی مہینے باقی تھے۔
اب جبکہ بلوچستان سمیت سارا پاکستان کچھ تشویش اور کچھ امید بھری نظروں سے آنے والے انتخابات کی راہ دیکھ رہا ہے رئیسانی حکومت کا وہ پرآشوب دور تب بھی ایک بھیانک خواب کی طرح لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔
فروری 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں نواب محمد اسلم رئیسانی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے تو صوبہ پہلے ہی سے بدامنی کا شکار تھا۔ اس سے تقریباََ دو سال قبل یعنی چھبیس اگست 2006 کو بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کو تب ہلاک کردیاگیا تھا جب ملک پر کمانڈو صدر پرویز مشرف کی حکومت تھی جن کی کم از کم ایک بات تو صحیح ثابت ہو ہی گئی اور اس بات کا پتہ ہی نہیں چل سکا کہ نواب بگٹی کو ”کہاں سے ہٹ“کیا گیا تھا۔
اس واقعے نے ان بلوچ نوجوانوں کو ایک بار پھر اسلحہ اُٹھا کر بغاوت پر مجبور کر دیا جو ایک عرصے سے مرکزی حکومتوں اور مقتدر قوتوں کی نا انصافیوں سے شاکی تھے ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ آئے روز بلوچستان بھر بالخصوص کوئٹہ اور اطراف میں لوگوں کی لاشیں گرنے لگیں۔21 نومبر 2007 کو ایک اور بلوچ رہنما بالاچ مری کی ہلاکت نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا اورصوبے بھر میں بدامنی اور کشت و خون میں تیزی آگئی۔ یہ وہ وقت تھا جب کوئٹہ اور اس کے اطراف میں ہزارہ قوم کے قتل و غارت کا سلسلہ بھی جاری تھا۔
9 اپریل 2008 کا دن اس لحاظ سے ایک تاریخی دن تھا کہ بلوچوں کا ایک با اثر نواب اور چیف آف ساراوان نواب محمد اسلم رئیسانی صوبے کی ایک منتخب جمہوری حکومت کے سربراہ بننے جارہے تھے جبکہ ایک اور بااثر بلوچ نواب ذولفقار مگسی پہلے ہی سے صوبے کے گورنر تھے۔ یہی نہیں بلکہ متعدد دیگر بلوچ سردار اور طاقتور شخصیات بھی آنے والے دنوں میں اس حکومت کا حصہ بننے جا رہی تھیں۔
اسی طرح صوبے کی اعلیٰ سول بیورو کریسی پر بھی نواب رئیسانی کے ہی قابل اعتماد افراد کا کنٹرول تھا۔ رئیسانی حکومت کی ایک اور خوش نصیبی یہ تھی کہ 65 رکنی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کسی نہ کسی شکل میں کابینہ کا حصہ تھی۔
اسمبلی کے اندر حکومت کی مخالفت کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا کیوں کہ واحد اپوزیشن رکن سردار یار محمد رند ایک کے سوا اسمبلی کے کسی اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے۔
یہ بھی ملکی تاریخ کا ایک خوشگوار اتفاق ہی تھا کہ پاکستان کے طاقتور ترین جمہوری صدر کا تعلق بھی ایک بلوچ قبیلے سے ہی تھا۔
یہ ایک بہترین موقع تھا کہ سیاست اور قدرت کی اس مہربانی کا فائدہ اُٹھا کر سب صدق دل سے بلوچستان کی محرومیوں کے خاتمے کے لئے سر جوڑ کے بیٹھ جاتے اور ان سارے بلوچ اکابرین کے اثرو نفوز سے کام لے کر ناراض رہنماؤں اور حکومت کے خلاف برسر پیکار جوانوں کو ملکی اور قومی دھارے میں دوبارہ شامل کرنے کے لئے خلوص نیت سے مذاکرات کا آغاز کرتے تاکہ ملک کے چوالیس فیصد وسیع و عریض رقبے پرمشتمل، ساحل اور بے پناہ معدنی وسائل سے مالامال اس صوبے کے لوگوں کی نہ صرف شکائتیں دور ہوجاتیں بلکہ ان کا عزت نفس بھی بحال ہو جاتا اور انہیں ملک کے دیگر صوبوں کے ساتھ برابری کا بھی احساس ہوتا۔
ایسا کرکے امن و امان کی صورت حال کو یقیناً بہتربنایا جاسکتا تھا۔ لیکن اسے ملک اور صوبے کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہوا اس کے بالکل برعکس۔ صدر زرداری تو بلوچوں سے محض ایک معافی مانگ کے اور ”اُدھر تم اِدھر ہم“ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے، بلوچستان کی حکومت رئیسانی کے سپرد کرکے گویا تمام ذمہ داریوں سے ہی بری الذمہ ہو گئے۔ جبکہ نواب اسلم رئیسانی بلوچستان کی تاریخ کا ایک نیا باب رقم کرنے کی تیاریوں میں لگ گئے۔
وفاق اور صوبے کے حکمرانوں کی اس بے توجہی کے نتیجے میں بلوچستان کی جو درگت بنی اسے ٹھیک کرنے میں شاید پھر ایک لمبا عرصہ درکار ہو۔ رئیسانی کی غیر سنجیدہ طرز حکمرا نی،صوبے کے معاملات سے ان کی بے اعتنائی اور اپنی حکومت برقرار رکھنے کی خاطر اتحادیوں کی نالائقی اور لوٹ مار سے دانستہ چشم پوشی کا یہ نتیجہ نکلا کہ بلوچستان میں لاقانونیت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔
اس دوران ہزارہ قوم کے خلاف دہشت گردی میں نہ صرف کئی گنا اضافہ ہوا بلکہ رئیسانی حکومت کے بعض وزرا ء پر ان حملوں میں ملوث دہشت گردوں کی معاونت کا الزام بھی لگا۔ حکومت کی بے حسی اور نالائقی کا یہ عالم تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب دہشت گرد کوئٹہ کے بازاروں میں گھومتے رہتے اور جہاں بھی کوئی ہزارہ نظر آتا اسے قتل کرکے انتہائی آرام سے ٹہلتے ہوئے نکل جاتے۔
قتل عام کے کئی بھیانک واقعات تو خود وزیر اعلیٰ کے آبائی شہر میں ہوئے۔ بعض مواقع پر قتل و غارت گری کے واقعات سے متعلق وزیر اعلیٰ کے مضحکہ خیز اور دل آزار بیانات نے بھی ان کی صلاحیتوں کی قلعی کھول کے رکھ دی۔
انہی پانچ سالوں میں مسخ شدہ لاشوں کی تعداد میں بھی کچھ زیادہ ہی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ قومی شاہراہیں غیر محفوظ ہو گئیں۔ ان راستوں پہ سفر کرنے والوں کو آئے دن لوٹا جانے لگا۔
بھری بسوں کو ویرانے میں لے جاکر مسافروں کو انکی تمام اشیاء سے محروم کرنے کی ایک دوڑ سی لگ گئی۔ آٹے اور سامان سے بھرے ٹرک ڑرائیور اور کلینر سمیت راستے میں ہی غائب ہونے لگے۔
کوئٹہ شہر میں تو گاڑیوں اور موٹر سائکلوں کے ساتھ ساتھ سائکلیں تک چھینی جانے لگیں۔ پولیس میں تو اتنا دم خم ہی نہیں تھا کہ ان وارداتوں میں ملوث با اثر مجرموں کے خلاف رپورٹ درج کرتی اس کے بجائے لوگوں کو چور وں سے براہ راست سودے بازی کا مشورہ دیا جاتا۔ تھانے مجرموں اور متاثرین کے درمیان سودے بازی کے اڈے بن کر رہ گئے۔
اغوا برائے تاوان کے واقعات اتنے تواتر سے ہونے لگے کہ روزانہ کئی افراد کے اغوا ہونے کی خبریں آنے لگیں۔ اس مقصد کے حصول میں انصاف سے کام لیتے ہوئے زندگی کے تمام شعبوں کے افراد اور بچوں سمیت خواتین تک کو اغوا کیا گیا۔
جلد ہی یہ اتنا منافع بخش”کاروبار“ بن گیا کہ اس بہتی گنگا میں حکومتی اراکین کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی ہاتھ دھونے شروع کر دئے۔ اس سلسلے میں مارچ 2012 میں صوبائی وزیر داخلہ میر اسرار زہری کا بیان جس میں اغوا کی ان وارداتوں میں بعض اراکین اسمبلی کے ملوث ہونے کی بات کی گئی تھی ریکارڑ پر موجود ہے جبکہ رئیسانی حکومت کے خاتمے کے صرف کچھ دن بعد یعنی20 جنوری 2013 کو ایف سی نے بھی ایک ایس پی سمیت پولیس کے ایسے کئی افسروں کو گرفتار کیاتھا جو اغوا کے متعدد ایسے واقعات میں ملوث تھے۔
بلوچستان پولیس کی ویب سائٹ کے مطابق 08-2007 سے12-2011 تک کے پانچ سالوں میں صوبے کی پولیس کا بجٹ پچیس ارب روپے کے برابر تھا جس میں تنخواہوں اور مراعات کے علاوہ ایک کثیر رقم امن و امان برقرار رکھنے کے لئے مخصوص تھی لیکن اس دوران صوبے میں امن و امان کی جو صورت حال رہی اس پرکسی تبصرے کی ضرورت ہی نہیں۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 2008 سے 2013 تک کے پانچ سالوں میں بلوچستان کا مجموعی بجٹ چھ کھرب پچپن ارب روپے کے برابر رہا۔ اس دوران صوبے کے ہر ایم پی اے کو اوسطاََ اسی کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز ملے۔ ایم این اے اور سینیٹرز کو وفاق کی طرف سے ملنے والی رقم ان کے علاوہ تھی۔
بلوچستان میں ارکان اسمبلی کی تعداد 65 ہے جن میں چھ ارکان ایسے ہیں جو کوئٹہ شہر کی نشستوں پر براہ راست منتخب ہوئے ہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں کوئٹہ کی عام نشستوں سے منتخب ہونے والے چھ اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ کی مد میں مجموعی طور پر ساڑھے چار ارب روپے سے زیادہ رقم مہیا کی گئی
لیکن چند ایک ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ یہ رقم کہاں خرچ ہوئی ا س کے بارے میں معلومات شاید صرف کاغذوں میں ہی مل سکیں۔ شہر کے بعض عوامی نمائیندوں نے تو سابقہ دور کے منصوبوں کوہی اپنے کھاتے میں ڈالنے اور پرانی تختیاں اکھاڑ کے اس کی جگہ اپنے نام کی تختی لگانے پر بہت سارا وقت ضائع کردیا۔
کوئٹہ کے باسی اس بات کے شاہد ہیں کہ شہر کی مصروف اور معروف ترین سڑکیں بھی اس قابل نہیں کہ ان کا مقابلہ کسی بھی پسماندہ ترین ملک کی سڑکوں سے کیا جائے۔ ہاں فائلوں کا منہ کالا کرنے کے لئے کئی مرتبہ ان سڑکوں کے چہرے پر بھی کالک ضرور ملی گئی ہے۔
یہی صورت حال صوبے کے دیگر علاقوں کی بھی ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر بلوچستان کو ملنے والی ان رقوم کا صحیح استعمال کیا جاتا تو صوبے کی حالت میں قدرے بہتری آسکتی تھی اور عوام کے مسائل بھی کافی حد تک کم ہو سکتے تھے۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2008 کے دوران زیارت میں جو زلزلہ آیا تھا اس وقت بھی پاکستان کے کچھ ”دوست عرب ممالک“ نے بلوچستان حکومت کی کافی”امداد“ کی تھی جو کچھ اخباری رپورٹوں کے مطابق صوبے کے اُس سال کے بجٹ سے بھی زیادہ تھی لیکن زلزلے کے متاثرین ایک عرصے تک معمولی امداد کے لئے بھی ترستے ہی رہے۔
حکومت کی نالائقی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پانچ سالوں میں اس سے یہ تک نہ ہو سکا کہ صوبے کے واحد میٹروپولیٹن شہر یعنی کوئٹہ میں ٹریفک کی ”سرخ سبز“ بتیاں ہی روشن کردیتی؟
لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سابق صوبائی حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا۔ انہوں نے مال غنیمت سمجھ کر صوبے اور عوام کی دولت کو جس طرح لوٹا اسے لوگ مدتوں یاد رکھیں گے۔
اس بندر بانٹ میں جس کو زیادہ حصہ ملا اس نے دبئی اور لندن میں جائیدادیں بنالیں اور جسکو بقدر جثہ کم حصہ ملا اس نے پاکستان میں اپنے پر پھیلانے کو ہی بہت جانا۔ جو پہلے سائکل رکھنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے تھے آج وہ نت نئی اور جدید گاڑیوں میں گھومتے نظر آتے ہیں ۔ ہونابھی یہی چاہئے تھا کیوں کہ ایسے مواقع روز تو نہیں آتے۔
ویسے بھی پاکستان میں کوئی کسی کی کار گردگی پر توجہ ہی کب دیتا ہے۔ لوگوں کی نظریں تو دوسروں کی حیثیت اور طاقت پر ہوتی ہے۔ اگلے الیکشن میں پھر یہی لوگ آئیں گے اور ہم ایک بار پھرانہی لوگوں کے نام کی ڈفلی بجانا شروع کردیں گے۔
کیا ہم اس بات کی توقع کرسکتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والے آئندہ انتخابات کے نتیجے میں ملکی اور صوبائی سطح پر ایسے لوگ سامنے آئیں گے جو عوام کا حقیقی درد رکھتے ہوں؟ جن میں خلوص نیت سے عوامی مسائل حل کرنے کا جذبہ ہو اور جو ملک اور صوبے کو ہر قسم کے بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں؟
کیا کریں کہ اچھے مواقع بھی تو بار بار نہیں آتے۔